اتوار کی صبح تنویر بھائی نے اندرون گوجرانوالہ گردی کا ارادہ باندھا. اتنا سویرے گرم بستر چھوڑنا اور یخ بستہ دھند میں لپٹے شہر کو دیکھنے جانا دل گردے کا کام تھا. (تصویراں کھچنیاں آسان کم نئیں کے لوکو) ایک برقی پیغام بھیج کر بھی یارِ غار کا عزم پختہ پایا تو سرد موسم کی دلفریبی کے دلاسے دل کو دیتے ہوئے عازم سفر ہوئے. دھند کی لپیٹ میں گردوپیش کے مناظر دیکھتے ہوئے آگے بڑھے. ایسے منظر بیان سے زیادہ، جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں. سیالکوٹی پھاٹک والے سٹینڈ پر موٹر سائیکلوں کو کھڑا کیا اور زمین دوز رستہ پار کر کے مخالف سمت پہنچے اور سٹریٹ فوٹوگرافی شروع ہوگئی.
سیالکوٹی دروازے کے کونے پہ نان چنے کی ریڑھی، دروازے سے ذرا آگے، نیند میں ڈوبی دکانوں کے بیچ، نیم خوابیدہ ایک ادھ کھلی دکان، جہاں پوریاں تلی جا رہی تھیں. اس دکان پہ بیٹھی، آگ تاپتی، اجنبی نظروں سے دیکھتی ہوئی، متجسس نگاہیں، اس سے ذرا پرے تھوڑا اوپر گرمائش میں لپٹا ایک نانبائی کا کمرہ، جس کے اندر سے خستہ خوشبوؤں کی لپٹیں باہر اُبل رہی تھیں. اس کی بغلی دیوار پہ جھانکتے ”ڈھاکہ بلڈنگ‘‘ کے الفاظ، کہیں دور بنگلہ دیش پہنچا آئے. شام کی رش آلود گلیوں میں، خامشی کفن اوڑھے سو رہی تھی. کہیں کہیں زندگی کی رمق باقی تھی اور زندگی جاگ رہی تھی. دوسرے درجے کے کپڑے، ریڑھی پہ سنوارتا ایک اُدھیڑ عمر، کسی اُدھیڑ بُن میں مبتلا تھا. چند ایک خاموشی کے پردوں کو چیرتی، بھاگتی دوڑتی گاڑیوں کی آوازیں…
تھانے والا بازار، 1895ء کی امریکن بیکری، تھانہ، شہباز تکہ کی پرانی دکان… وہاں سے چوک میں جاکر داہنی طرف مڑے۔ بھابھڑاں والے بازار، چند قدم آگے ایک آدمی کی نشاندھی پہ یہ دروازہ ملا۔ قریب سو سال پرانی تاریخ کا رکھوالا! زمانے کے سرد و گرم کا گواہ. اس دروازے پہ کندہ نقش پرندے، پھول، بیل بوٹے، ہنر مند کی محبت کی نشانی۔۔۔ اب صرف ایک یاد ہے، جس کے کواڑوں پہ مضبوط تالا لگا ہوا ہے، جس کے اندر عشروں سے کوئی نہیں جھانک سکا. ہم بھی بے بس دروازے کی خاموشی کی زباں سننے کو رکے. کچھ عکس زادِ راہ کو اپنی سفری پوٹلی میں باندھے اور آگے نکل پڑے جہاں رستے میں ایک گلی ”لہنا سنگھ‘‘ کے نام کا تعویذ باندھے کھڑی تھی.
اس سے ذرا آگے صرافہ بازار چوڑیگراں تھا. باغیچی چوک تھا، اردو بازار تھا، گھنٹہ گھر تھا، وہاں سے موڑ مڑتے ہوئے نیائیں چوک جا پہنچے. جہاں نعیم کی جلیبیاں ابھی شام کے انتظار میں گُندھی پڑی تھیں اور وہ گلی، جس میں جوان ہو کر بدنام ہم ہوئے. جہاں مَیں 1986ء میں، چھٹی جماعت میں داخل ہوا. گورنمنٹ عطا محمد سکول نمبر ایک۔۔۔ اس گلی کو سلام کرنے پہنچے! محبوب عالم، عطا محمد نمبر دو اور پھر میرا سکول جہاں چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کا کچھ حصہ گزرا. اس کے بعد بڑا قبرستان، اس میں کچھ باقیات، پرانے مزار… مبارک شاہ کا مزار اور بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی قبر. پھر مبارک شاہ روڈ سے سبزی منڈی، پھر نیائیں چوک ، اردو بازار، گھنٹہ گھر، گورونانک پورہ میں حلوہ پوری کا ناشتہ، پھر واپسی کاسفر۔۔۔ اردو بازار، نکا چوک، صرافہ بازار، سیالکوٹی پھاٹک، ہماری موٹر سائیکلیں اور گھر واپسی۔۔۔۔ قدم شل مگر دل خوشی سے لبریز۔۔۔