گذشتہ دنوں سکندر ہاؤس ڈیفنس کراچی ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی جاری کردہ انتالیسواں اور ’’بہ یاد ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی دوسرا یکجہتی ظہرانہ ومشاعرہ‘‘ منعقد ہوا جس میں شہر کے معروف و ممتازشعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
تقریب کی نظامت ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر کے حصے میں آئی۔ انہوں نے کہا ’’آج ہم سب یکجا ہیں۔ معروف ادیب، دانشور، مزاح نگار، سفر نامہ نگار، کالم نگار، اُردو انگریزی سمیت ستائیس کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے انتالیسویں سالانہ یکجہتی ظہرانے و مشاعرے میں۔
آج کادن… آج کا ظہرانہ… آج کا مشاعرہ… یادگار ہے… انتالیس سال قبل کے یک جہتی ظہرانے کی… جس کا آغاز ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے اپنے چند احباب سے کیا تھا۔ بھر پور پذیرائی حاصل ہونے پر یہ اس سے اگلے سال چند احباب کے اضافے سے دوسری بار ہوا اور پھر ہرسال ہوا۔ بعض احباب آج کے دن کو ’’اعلیٰ پائے کی دعوت‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں اور اس دن کا انتظار کرتے ہیں، اس تقریب میں شرکت کو باعث اعزاز سمجھتے ہیں. اس تقریب میں بعض شرکا ایسے بھی ہیں جو پہلی تقریب میں بھی موجود تھے۔ وہ اس تقریب کی تاریخ بہتر جانتے ہیں۔ مسند خاص پر تشریف فرما ہیں صدر الصدور جناب جنرل معین الدین حیدر، جناب سردار یٰسین ملک صاحب، معروف تاجر جناب میاں زاہد حسین، مہمان خصوصی ہیں محترمہ مہتاب اکبر راشدی، آج کے مشاعرے کے صدر جناب محمود شام اور کینیڈا سے تشریف لائے ڈاکٹر صاحب کے دوست جناب شبیر احمد بھٹی۔ ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر نے کہا کہ شبیر احمد بھٹی اور ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی دوستی نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے اور ہرسال خصوصی طور پر اس تقریب میں شرکت کے لیے کینیڈا سے تشریف لاتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شبیر صاحب اسی گھر کے فردہیں۔ یہ دوسری تقریب ہے جو ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی میزبانی کے بغیر منعقد ہورہی ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب کے سب سے چھوٹے صاحب زادے فہیم قریشی کی لگن و دلچسپی شامل ہے۔ بقول پروفیسر سحر انصاری فہیم قریشی ’’روایت پدری‘‘ نباہ رہے ہیں ۔ آج کی تقریب بہ یادگار ڈاکٹرایس ایم معین قریشی کے طور پر منعقد کی گئی ہے۔
ہمیشہ کی طرح یہ تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلا حصہ مشاعرے کا تھا اور دوسرے حصے میں مہمان اعزاز اور مہمان خصوصی کے ساتھ ساتھ مجلس صدارت پر رونق افروز صاحبان صدورنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
تقریب میں موجود ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے دوستوں میں سے اکثریت شعرا کی تھی لیکن محدود وقت کی وجہ سے چند شاعروں کو دعوت کلام دی گئی۔ عنبرین حسیب عنبر نے تقریب کے انتظامات کو سراہا۔
تقریب کا آغاز ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے نواسے حافظ حسن ضیا کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس سے متصل شبیر احمد بھٹی نے بحضور سرور کائنات صلی اﷲعلیہ وسلم اپنا نعتیہ کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مشاعرے سے پہلے م ص ایمن کو سٹیج پر بلوایا گیا. وہ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے ایسے دوست ہیں جن سے ان کی کثرت سے ملاقاتیں ہوئیں۔ م ص ایمن نوکتابوں کے مصنف ہیں۔ عنبرین نے بتایا کہ ان کی کتابوں کے نام بہت منفرد ہوتے ہیں، ”کنگلے کا بنگلا‘‘، ”وفا کی وفات‘‘، ”سنگ بے بنیاد‘‘۔ م ص ایمن نے اپنے مخصوص انداز میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی ادبی زندگی کی ’’آخری صدارت‘‘ کا احوال پیش کیا۔ ان کے مخصوص انداز و اسلوب کوبھی عنبرین حسیب عنبر نے خوب سراہا اور برملا کہا ”ان کی تحریر بھی عمدہ ہے اور اسلوب بھی بہترین ہے۔ یہ ہم نے پہلی بار دیکھا ہے کہ ایمن صاحب ایک رول بنا کر لائے ہیں۔ اسے گھماتے رہے ہیں ۔ ہم اس انداز سے بہت متأثر ہوئے ہیں۔ ایسا لگا جیسے بادشاہوں کے دور میں شاہی فرمان جاری کیے جاتے تھے۔‘‘ مشاعرے کے آغاز پرعنبریں حسیب عنبر نے اپنا کلام پیش کیا۔ ان کے بعد جن شعرا کرام نے اپنے کلام پیش کیا، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: مہر گل، رخسانہ صبا، خالد میر…
خالد میر کو سال گزشتہ ”علم دوست پاکستان‘‘ کی جانب سے سال کے بہترین شاعر کا ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔ انہوں نے خوب داد سمیٹی اور اس شعرپرحاضرین کے لبوں پر مسکراہٹ بھی بکھیر دی ؎
تم سے مل کر سکون ملتا ہے
بے دھیانی میں کہہ دیا ہوگا
خالد معین، اختر سعیدی، نسیم نازش، فیاض علی فیاض، حیات رضوی، فاطمہ حسن، پروفیسر سحر انصاری مشاعرے کے صدر جناب محمود شام نے آخر میں اپنا کلام سنایا۔
مشاعرے کے اختتام پر مہمان اعزاز محترمہ مہتاب اکبر راشدی، مہمان خصوصی اسمٰعیل سرمہ والا نے خطاب کیا۔ پھر مجلس صدارت پر متمکن حضرات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان میں سب سے پہلے ملک کے ممتازتاجر جناب میاں زاہد حسین صاحب، پھر معروف صنعت کار سماجی شخصیت سردار یٰسین ملک اور پھر صدالصدور لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے خطاب کیا۔
تقریب کے آخر میں میزبان فہیم قریشی صاحب نے مہمانوں کی تشریف آوری کاشکریہ ادا کیا اور بتایا کہ پہلی تقریب 1982ء میں ہوئی تھی جو اب تک مسلسل ہو رہی ہے۔ انتالیسویں تقریب اس لحاظ سے ہے کہ ایک سال کرونا کی وجہ سے تعطل پیدا ہوگیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں بزنس مین ہوں. ادب سے تعلق اتنا ہی ہے کہ میرے والد صاحب ادیب تھے، ان کی یاد تازہ رکھنے کے لیے میں ان کے ادیب وشاعر دوستوں کو یکجا دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہوں۔ میری اور میرے گھرانے کی کوشش ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ آپ تمام حضرات سے ملاقات ہوتی رہنی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ میرا دوبئی میں بھی کاروبار ہے جس طرح انکل شبیر احمد بھٹی کینیڈا سے تشریف لائے ہیں، میں بھی اس تقریب کے انعقاد کے لیے خصوصی طور پر دوبئی سے آیا ہوں۔ میزبان فہیم قریشی نے تمام حاضرین کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا۔ تقریب کے بعد حسب روایت مہمانوں کی تواضح‘ کے لیے پائے اور نان، پیش کیے گئے، جو لذت میں اپنی مثال آپ تھے. بلاشبہ یہ ایسی دعوت ہے جو واقعی ”اعلیٰ پائے کی دعوت‘‘ کہلائے جانے کی مستحق ہے۔
روداد: م ص ایمن، تصاویر: عبدالمجید
بہت شکریہ عمدہ روداد