غلامیءِ مصطفیﷺ میں آ کر
تمام دنیا غلام کر لیں
اس خوب صورت شعر کے خالق نوید اقبال بحرِ عشق ِ سرکار میں غوطہ زن ہیں۔ جب خیال کو عروج ملا تو سوچ گکھڑ سے مدینے جا پہنچی اور مدحتِ رسولﷺ کے توسط سے عروجِ فن پایا۔ قلم گلفشاں ہوا تو عقیدت کے پھول بکھیرے جن سے سوچیں معطر ہوگئیں۔ الفاظ کو اشعار کی مالا میں پرو کر سرکارِ دو عالم ﷺ کی خدمت میں نعوت کی صورت پیش کیا۔ مجموعہ کلام کا نام ’’عروجِ سخن‘‘ رکھا کہ بلا شبہ حمدیہ و نعتیہ کلام سخن کا عروج ہی ہے۔
ابتدا میں ما ں کے نا م انتساب میں لکھتے ہیں کہ…
منسوب میری ماں سے ہے عروجِ سخن مرا
نام و نسب، حساب میں نعتِ رسولﷺ ہے
یوں تو بے شمار شعراء نے لا تعداد نعتیں اپنے اپنے انداز میں کہی ہیں مگر نوید اقبال کے کلام میں ایک جداگانہ رنگ ہے جو رسمی نہیں قلبی ہے جبھی تو لکھتے ہیں کہ:
صورت و سرودِ نعت ہے خلدِ بریں سے دل نشیں
میری دعائے مغفرت ، میری دعائے نعت ہے
نوید کے نعتیہ کلام سے ان کی دلی کیفیت عیاں ہے لکھتے ہیں کہ:
جب آنکھ لگی، رہ گئی اک نعت ادھوری
اب نیند بھی پوری ہے مری نعت بھی پوری
شاعری کے میدا ن میں نعت کی صنف بہت حساس ہے اس اعتبار سے کہ الفاظ کے چناؤ میں آپ کو بہت احتیاط برتنی ہوتی ہے ذرا سی لغزش عروج سے زوال کی طرف لے جاتی ہے اور اس بات سے نوید اقبال بخوبی آگاہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ:
شرک ڈستا ہے جب عقیدت کو
پھر جزا بھی سزا میں ڈھلتی ہے
عروجِ سخن میں عروجِ خیال ملاحظہ ہو:
حمد کب دور ہے محمدؐ سے
صرف اک میم، حا سے ملتی ہے
یوں لگتا ہے کہ شاعر نے جب مجموعۂ نعت لکھنے کا ارادہ کیا تو پھر ان کے پیشِ نظر فقط نعت ہی نعت رہی اور شب و روز اسی تگو دو میں رہے۔ اسی حوالے سے رقم طراز ہیں کہ:
اپنے حجرے کو ہی محراب بنا لیتا ہوں
نعت کہنے کے میں اسباب بنا لیتا ہوں
نوید جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو عرض کرتے ہیں:
یا ربّ! مرے خیال کو وسعت نصیب کر
میرے سخن کو نعت سے عزت نصیب کر
حبِ رسولِ پاکﷺ میں چلتا رہے سدا
میرے قلم کو دائمی حرمت نصیب کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری نسلیں ہوں نعت سے روشن
میرے بچوں کو بھی دیا کر دے
خیال آفرینی کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
عقل و شعور و فہم نہ ادراک سے بنی
نعتِ رسولؐ دیدۂ نمناک سے بنی
کافی ہے دو جہاں کو سراپا وہ نور کا
آدم کی ساری آل بھلے خاک سے بنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاکپائے حضورﷺ کے صدقے
سانس آئے حضورﷺ کے صدقے
حرفِ کن آپﷺ کی بدولت ہے
سب ہیں آئے حضورﷺ کے صدقے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکرِ خیر الوریٰ سے محرومی
یعنی کارِ خدا سے محرومی
اب سہارا ہے صرف نعتوں کا
اب ہے ماں کی دعا سے محرومی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک بار پڑھ کے دیکھ لے، دل سے درود بھی
چلتی نہیں ہے جس کی مقدر کے سامنے
زیر نظر کلام میں جا بجا نبیﷺ، یارانِ نبیﷺ اور اہلِ بیت ؓ سے عقیدت و محبت کا عکس دکھائی دیتا ہے:
پاس صدیق ؓ بھی عمر ؓ بھی ہیں
اور یہ قربت وفا سے ملتی ہے
عقدِ عثمانؓ میں دو نور ہیں
ایسی نسبت حیا سے ملتی ہے
جب بھی نصرت محال ہو جائے
دستِ شیرِ خدا ؓ سے ملتی ہے
یہ نوید اقبال کی خوش بختی ہے کہ ان کا پہلا شعری مجموعہ، نعتیہ مجموعہ ہے اور یہ بلا شبہ عطائے ربی اور حُبِ مصطفیﷺ ہے ورنہ بڑے بڑے شعراء کے مجموعہ کلام میں نعت کا ایک شعر بھی نہیں ہوتا۔ دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ان کی عمراور علم میں برکت عطا فرمائے، آمین