”سفرنامہ‘‘ قواعد کی رو سے مرکب امتزاجی ہے یعنی یہ ایسی تحریر ہے جس میں جذبات، خیالات، مشاہدات اور محسوسات کا امتزاج ہوتا ہے. راؤ اطہر اخلاق کا سفرنامہ ’’سوادیکا‘‘، تھائی لینڈ کا ایک ایسا ہی سفرنامہ ہے جس کے ذریعے مصنف نے دورانِ سفر مشاہدات و تجربات کے امتزاج میں قارئین کو بھی شریک کرلیا ہے.
میری اس سفرنامے میں دلچسپی اس لیے بھی کچھ زیادہ ہے کہ 2002ء میں میرا اولین غیر ملکی سفر تھائی لینڈ کا ہی تھا جہاں 2009ء میں ایک بار پھر میرا جانا ہوا. وہاں کی طرزِ معاشرت اور قدرتی نظاروں کا میں بھی کسی حد تک شاہد ہوں، البتہ مصنف کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ یہ اردو زبان میں تھائی لینڈ کا پہلا سفرنامہ ہے کیوں کہ اس سے پہلے تھائی لینڈ کے کئی سفرنامے (”نگری نگری پھرا مسافر‘‘ از ابنِ انشاء، ”وہی رہ گزر‘‘ اور ”کھول آنکھ زمین دیکھ‘‘ از ابو یحیٰ (ریحان احمد یوسفی)، کرن، تتلی اور بگولے‘‘ از پروین عاطف، ”نگری نگری‘‘ از جاوید محسن ملک، ”بِن باس‘‘ از راجہ انور، ”کیمرہ قلم اور دنیا‘‘ از ریاض الرحمٰن ساغر، ”میرے سنہرے سفرنامے‘‘ از عبدالمالک مجاہد، ”دنیا خوبصورت ہے‘‘ از عطاء الحق قاسمی، غلام عباس وڑائچ کے دو سفرنامے ”میں کہاں کہاں نہ پہنچا‘‘ اور ”مشرق میں مغرب‘‘، ”کاش‘‘ از کوکب خواجہ، ”سفر تین درویشوں کا‘‘ از محمد اختر ممونکا، ”مشرق کا وینس‘‘ از ڈاکٹر عبد الرحمٰن خواجہ، ”منزلیں اور قوس قزح‘‘ از حسن ظہیر جعفری، ”مسافر‘‘ از سعود عثمانی ”دنیا رنگ رنگیلی‘‘ از طارق محمود مرزا، ”سفرنامہ تھائی لینڈ‘‘ از وحید قندیل و دیگر) شایع ہو چکے ہیں.
راؤ اطہر اخلاق نے نہایت خوبی سے تھائی لینڈ کے سفر میں پیش آنے والے حالات، واقعات، کیفیات اور تاثرات کو قلم بند کیا ہے. ذاتی محسوسات اور قلبی واردات بھی ان کے سفرنامے میں عمدگی کے ساتھ موجود ہیں. ان کے سفرنامے کی ایک بڑی خوبی یہ کہ وہ سفرنامے کی صنف میں شامل تحیر اور دلچسپی کے عناصر کو تخلیق کی سطح لانے میں کامیاب رہے ہیں. ان کا اسلوبِ تحریر تحقیقی و تنقیدی کے بجائے تخلیقی و ادبی اظہاریہ کا حامل ہے. سفرنامے کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک فطری سیاح ہیں جنہیں اللہ رب العزت نے مشاہدہ کی نعمت سے مالا مال کر رکھا ہے اور اسی مشاہدے کو قرطاس پر اتارنے کا ہنر جانتے ہیں.
راؤ اطہر اخلاق نے سفرنامے کا جمالیاتی رخ پوشیدہ نہیں رکھا اور اسے اپنی اصل صورت میں قارئین کے سامنے من وعن پیش کیا ہے. مصنف کا انداز تحریر جالب، سادہ اور عام فہم ہے جس کے باعث قارئین ان کی انگلی تھامے نگر نگر کی سیر کرتے ہوئے بڑھتے چلے جاتے ہیں. سفرنامہ نگار نے واقعہ نگاری، منظر کشی، ادبیت اور عمدہ اسلوب کی چاشنی سے سفرنامے کی عبارت کو چار چاند لگا دیے ہیں. ان کا یہ سفرنامہ ان کی تحریری صلاحیت، برجستگی اور شگفتگی کا دل آویز مرقع ہے.
راؤ اطہر کے سفرنامے میں قلبی و فکری تجربات کی رنگارنگ دنیا دیکھی جا سکتی ہے. انھوں نے اپنے دو دوستوں عابد اور خالد کی ہمراہی میں یہ سفر کیا تھا. ان تینوں سیاحوں کی دلچسپ باتیں قارئین کو بے ساختہ مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہیں. علاوہ ازیں ایک امریکی دوشیزہ سے ملاقات اس سفرنامے کا وہ رومانوی حصہ ہے جو پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا حامل ہے.
’’سوادیکا‘‘ کے علاوہ راؤ اطہر اخلاق کا ایک اور سفر نامہ ”سری لنکا کہانی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جو سفرنامہ نگار کی دبی اور سری لنکا کی سفری یادوں پر مشتمل ہے. یہ دونوں کتابیں سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور کے زیرِ اہتمام شائع ہوئیں. مجھے یقین ہے کہ راؤ اطہر اخلاق سفر اور تحریر کا سلسلہ جاری رکھیں گے.