’’نبیرۂ ذوق‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ نواب ناظم میو کی یہ تصنیف دراصل اپنے استاد کو خراج تحسین پیش کرنے کی اعلٰی اور قابلِ تعریف مثال ہے. مصنف نے اپنے استاد محترم کے ادبی کارناموں اوران کے فنِ شاعری کو اس کتاب کا حصہ بنایا ہے. اس تصنیف میں علامہ ذوقی مظفر نگری کے حالاتِ زندگی اور شاعری پر تنقیدی اور تحقیقی نگاہ ڈالی گئی ہے.
حافظ محمود الحسن صدیقی متخلص بہ ذوقی مظفر نگری پندرہ جنوری 1921ء کو مظفر نگر ہندوستان میں پیدا ہوئے. تین کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی. دارالعلوم دیوبند سے بھی تعلیم حاصل کی. ادیب کامل ادیب فاضل اور وی ٹی سی کیا. قیام پاکستان تک اسلامیہ ہائی بٹھنڈہ میں تدریسی فرائض انجام دیے اور پھر پاکستان آگئے. لاہور میں مقیم ہوئے اور 2013ء میں وفات پائی.علامہ ذوقی مظفر نگری کی دس کتابیں شایع ہوئیں جب کہ ایک مجموعہ نعت غیر مطبوعہ ہے. شایع شدہ کتب میں دو مجموعہ نعت، چار غزلیہ مجموعے، دو مجموعہ نظم اور دو نثری کتب شامل ہیں.
مصنف نے اپنے استاد معظم سے اوّلین ملاقات کا منظر نہایت دل آویز انداز میں رقم کیا ہے. مصنف نے علامہ ذوقی مظفر نگری کےحالات اسیری کا تذکرہ بھی شامل کتاب کیا ہے کہ جب انہیں قیام پاکستان سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے باعث قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں.
نواب ناظم میو صاحب نے اس کتاب میں اپنے استاد محترم کی شخصیت کا خاکہ بہت عمدہ انداز میں پیش کیا ہے. ان کی غصیلی طبعیت اور مشفقانہ برتاؤ کی منظر کشی کی ہے. نواب ناظم صاحب نے نہایت عمدگی سے علامہ کے ادبی مقام خصوصاً غزل گوئی کے بارے میں اپنے خیالات تحریر کیے ہیں. علامہ ذوقی مظفر نگری کے وہ یادگار حالات بھی کتاب کا حصہ ہیں جو لاہور کے تیزاب احاطہ اور سوامی نگر کے علاقوں میں گزرے. مصنف نے اپنے استاد محترم کے استاد احسان دانش کے بارے میں بھی تحریر کو کتاب کی زینت بنایا ہے. انھوں نے علامہ ذوقی مظفر نگری اور ان کے شاگرد رشید، بشیر رحمانی کےمابین نظریاتی مکالمے کو بھی کتاب میں شامل فرمایا ہے جس سے علامہ ذوقی مظفر نگری کی دین دوستی اور بشیر رحمانی کی وسیع القلبی کا خوش کن احساس جنم لیتا ہے.
زیرِ تبصرہ کتاب ’’نبیرۂ ذوق‘‘ میں علامہ ذوقی مظفر نگری کی کتابوں پر منفرد اور اعلی ادبی مضامین بھی شامل ہیں جن میں ان کے ادبی محاسن پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان کی نثری اور شعری ادبی خدمات کا تذکرہ عمدگی سے تحریر کیا گیا ہے. علامہ ذوقی مظفر نگری کے بارے میں مختلف اہلِ قلم کی تحاریر بھی اس کتاب کا حصہ ہیں.
مصنف نے ان کی کتابوں پر لکھے گئے پیش لفظ، مقدمے اور ان کے منتخب کلام کو اس کتاب میں شامل کر کے اسے ایک عمدہ اور قیمتی دستاویز کی صورت دے دی ہے جس سے اس کتاب کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے.
ایک شاگرد کا اپنے استاد محترم و معظم کو ایسا شاندار خراج تحسین یقیناً کوئی عظیم انسان ہی پیش کر سکتا ہے. میری دانست میں نواب ناظم بلند کردار اور عظیم الشان روایات کے آمین ہیں. اللہ تعالیٰ ان کے قلم اور زندگی میں برکات شامل رکھے، آمین.
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ