محترمہ مشرف مبشر کے سفرناموں پر ایک غائیتی نظر – حسنین نازشؔ

میرامشرف مبشر صاحبہ سے غائبانہ تعارف تو تھا مگر میری ان سے پہلی ملاقات پروفیسر ڈاکٹر نثار ترابی کی وساطت سے گذشتہ سال اسلام آباد میں ہوئی۔ مجھے ان سے مل کر بے حد خوشی ہوئی جس کی وجہ ہم دونوں کی مشترکات ہیں۔ مثلاََ ہم دونوں درس و تدریس کے پیشہ سے وابسطہ رہے۔ ہم دونوں راہِ نثر کے مسافر ہیں۔ وہ افسانہ لکھتی ہیں اور میرے قلم کی سیاہی سے بھی ”پہلی اڑان‘‘ نامی افسانوی مجموعہ داد و تحسین پا چکا ہے۔ ہم دونوں ملکوں ملکوں گھوم کر نئی نئی دنیائوں کا منظر اپنی آنکھوں میں سجا کر بعد ازاں صفحہِ ادب پر کہانیوں اور سفرناموں کی صورت میں یکجا کر کے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ یوں مذکورہ مشترکات کے سبب ہمارا مشترکہ قلمی رشتہ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ میرے امریکہ کے سفرنامے ’’امریکہ میرے آگے‘‘ کی تقریبِ پزیرائی میں بطور خاص پشاور سے اسلام آباد تشریف لاکر انہوں نے میرا مان بڑھایا ۔
مشرف مبشر صاحبہ کے بارے میں استاد الاساتذہ ڈاکٹر نثار ترابی فرما چکے ہیں:
’’خیبر پختون خوا کا علمی و ادبی حلقہ گواہ ہے کہ مشرف صاحبہ کا شمار ان معدود چند صاحبانِ توفیق اہل قلم میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنا سارا جیون وطن پرستی، ادب نوازی اور علم پروری کی جستجو اور نمو میں بسر کیا.‘‘
صاحبانِ علم و ادب! سفر انسانی زندگی کا جزو لاینفک ہے. عربی کی مثل ِمشہور سبھوں نے سن رکھی ہو گی کہ ”سفر وسیلہ ظفر‘‘ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سفر کامیابی کی کنجی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں فقط وہی قومیں فتح مندی سے ہم کنار ہوئی ہیں جنہوں نے بہ شوق ا ورغبت اسفار اختیار کیے۔ سفر ایسی نایاب چیز ہے کہ جس میں اگر ناکامی بھی حاصل ہو تو بھی کوئی نہ کوئی دلچسپ فائدہ ضرور ہاتھ لگ جاتا ہے۔
ہم نے اپنی نصابی اور غیر نصابی کتب میں بارہا پڑھا کہ ”سیرو فی الارض‘‘ یعنی زمین کی سیر کرو چنانچہ جب مسلمان سفر اختیار کرنے میں پیش پیش رہے وہ کامیاب اور کامران ہوئے اور جب انہوں نے اس معاملے میں پست ہمتی دکھائی تو وہ پسماندہ ہوگئے۔ انگریزوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب ان کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، ان کو جو مقام و مرتبہ اس سے ملا تھا کہ انہوں نے اپنی سرزمین سے نکل کر چار دانگ عالم میں اسفار اختیار کیے اور نئی نئی دنیائوں میں اپنے قدم جما لیے۔ آج دنیا کے کسی بھی خطے کا نام لے لیں، ان ملکوں پر انگریزوں کی نسلیں آج بھی حکمران ہیں۔
عالمی سطح پرالبیرونی، مارکو پولو، ناصر خسرو، شیخ سعدی، ابن ہیکل بغدادی اور ابن بطوطہ جیسی ہستیوں کے تجربات اور مشاہدات نے انسانی فکر کی گہرائی اور علم و تجسّس میں اضافہ کیا ہے۔ یونانی سیّاح میگس تھنیز (Megasthenes)، چندر گپت موریہ کے دربار میں تقریباً تین سو سال قبل مسیح ہندوستان آیا تھا۔ میگس تھنیز کے سفر کے تجربے اور بیانیہ شاید دنیا کا پہلا سفر نامہ ہے۔ جس کے آج صرف حوالے ہی ملتے ہیں اور اسے دنیا کی قدیم ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یونانی بادشاہ سکندر اعظم نے ہندوستان پر حملہ کیا… یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سفر نامے نے ہی سکندراعظم کی ہندوستان تک رہبری کی تھی۔ ہندوستان پر سکندر اعظم کا حملہ تین سو پچاس سال قبل مسیح ہوا تھا۔
اردو سفرناموں کی تاریخ کی جب بھی ورق گردانی ہوئی تو یوسف خان کمبل پوش کا سفرنامہ ”عجائبات فرنگ‘‘، مولانا شبلی نعمانی کا سفر نامہ ”روم و مصر و شام‘‘ اور محمود نظامی کا ”نظر نامہ‘‘ روشن ابواب کی طرح ہمیشہ تابندہ نظر آتے ہیں۔ ان کے علاوہ بیگم اختر ریاض الدین کے دو سفر نامے ”سات سمندر پار‘‘ اور ”دھنک پر قدم‘‘ ندرت بیان اور دلکش اسلوب کی بنا پر بہت دلچسپ ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کا ”سفر نامہ حجاز و مصر و شام‘‘ حکیم سعید کا ”ماور البحار‘‘ اور ممتاز مفتی کا ”لبیک‘‘ کے علاوہ ابن انشاء کے سفر نامے ”چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘، ”ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ اور ”دنیا گول ہے‘‘ سفرناموں میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ان سفرناموں کے علاوہ جمیل الدین عالی کے دو سفرنامے ”دنیا میرے آگے‘‘ اور ”تماشہ میرے آگے‘‘، عطاالحق قاسمی کا ”شوقِ آوارگی‘‘، مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے ”نکلے تیری تلاش میں‘‘ اور ”اندلس میں اجنبی‘‘ یورپی ممالک کے اسفار کے حالات پر مبنی دلچسپ سفرنامے ہیں۔
سفرنامہ نگاری دشوار صنف ادب ہے۔ اس کی تخلیق کے لیے نہ صرف شبینہ راتوں کی آہیں درکار ہیں بلکہ دنوں میں آبلہ پائی کی صہوبتیں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ سیر وسیّاحت کی کہانیاں اپنی پوٹلی میں باندھ کر قریہ قریہ سفر کرناحضر کی صعوبتوں کو ذہن نشین کرنا، ہجرکی لمبی راتوں کے سیاہ کاجل کو دامن میں سمیٹ کر، دشت کے قاتل عفریت سے جان بچا کر چاک گریبان کی قبائیں جب واپسی پر کھولی جاتی ہیں تب کہیں جا کر سفرنامہ ترتیب پاتا ہے۔ یہ وہ دور نہیں جب ڈڑائنگ روم میں بیٹھ کر سفرنامے تحریر کیے جاہیں۔ اِس دور میں آپ کا قاری فوٹو اور ویڈیو کی گواہی بھی مانگتا ہے کہ واقعی سفر کیا بھی گیا ہے یا نہیں؟ مشرف مبشر صاحبہ نے اپنے سفرناموں میں اپنی تصویری ثبوت کتاب کا حصہ بنا کر واضح کردیا ہے کہ انہیں نے سفر کیے تبھی سفرنامے لکھے ہیں۔ تاحال میری نظر سے ان کے انگلستان کے دو سفرنامے ’’ویلز۔۔دل آویز‘‘، ’’ولایت چلتے ہیں‘‘ اور ایران کا سفرنامہ ’’بوستانِ ایران‘‘ گزرے ہیں۔

محترمہ سفرنامہ رقم کرنے کے حوالے سے ’’ویلز۔۔۔دل آویز‘‘ میں لکھتی ہیں:
’’خوابوں کی جستجو انجانے راستوں کے چونکا دینے والے مرحلوں پر لے آتی ہے۔ غیر متوقع مشاہدات وتجربات فطرت کے قریب کر دیتے ہیں۔ ذہن وقلب میں ستاروں اور جگنوؤں کی جھملاہٹیں رقصاں ہوتی ہیں تو سفرنامہ رقم ہو جاتا ہے۔ سفر شروع کرتے ہی زندگی کی بے رنگ سلیٹ پر نئے گل بوٹے کھل اٹھتے ہیں۔‘‘
ان کے سفرناموں کے ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ان کے سفرنامے صرف اس خاص ملک یا شہر کی تاریخ، جغرافیہ اور سماجی حالات کے بیان کا نام نہیں بلکہ سفرنامہ نگارکے اپنے ا حساسات، مشاہدا ت اورتاثرات کا بیان بھی ہے جس میں وہ اپنے قاری کو شریک کرکے اپنے اندر کی دنیا میں جھانکنے کا موقع دیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ان کا سفرنامہ داخلیت اور خارجیت کا ایسا متوازن اور خوب صورت بیان ہے جس میں ان کا اسلوب اور اس کا مزاج انفرادیت کا رنگ بھرتا ہے۔
سفرنامہ ویلز۔۔۔دل آویز میں رقم طراز ہیں:
’’ہم کہاں کے سیّاح اور کیسی ہماری سیّاحت۔۔۔ آسانیوں والا سفر۔۔۔ جہاں گئے آرام و سکھ چین۔ آرام طلبی کے اس سفر میں جو چند ایّام و ماہ گزرے ہیں۔۔۔اس آپ بیتی اور جگ بیتی کا احوال بیان کرنے میں کیا رد وکد۔ کیا معلوم کتنی سماعتیں برآواز اور کتنے دل مشتاق وبیزار ہوں گے۔ یہ تو ہونا ہے سو ہونے دو۔ جہاں کہیں سے گزرے، اپنے نشانات کیا چھوڑتے کہ جھولی میں تھا ہی کیا؟ البتہ جہاں سے بھی گزر ہوا، علم و آگہی کی سوغاتیں سمیٹیں۔۔۔ نئے ملک، نئے شہر اور نئے ٹائونز میں جانے کا تجربہ، نئے اور چونکا دینے والے مقامات راہ میں آئے۔ عجائب وغرائب غیر متوقع طور پر سامنے آکر حیرت زدہ کرتے رہے۔ دل چسپ اور خوش نظر و دلفریب، بنی نوع کی مختلف قامتیں، رنگتیں، شباہتیں، مختلف طور اطوار، سوچ و فکر، یہ سب کچھ بے حد اچھا اچھا لگتا۔ ہر شے جدا، ہر رنگ مختلف اور یگانہ۔۔یکسانیت اور ہم آہنگی تھی تو صرف فطرت انسان میں۔ دنیا کے کسی بھی کونے گوشے کا انسان ہو، فطرت اور جبلت یکساں۔ ایک جیسی۔ سِر مُو فرق نہ پایا۔ حکیم وخبیر خالق باری تعالیٰ کی حکمتیں ہیں کہ اپنے بندوں کی سیرو فی الارض کا حکم دیاہے۔ فطرت کے بے محابا جلوے، دریا، سمندر، جھیلیں، آبشاریں، کوہ دمن، دشت وصحرا، مرغزاراور میدان۔۔۔جہاں سے گزر ہو، کہیں بھی نگاہیں اٹھیں، بے اختیار دل سے آواز اٹھتی ہے۔ سبحان اللہ۔۔۔‘‘
مشرف مبشر صاحبہ نے انگلستان اور ایران کوظاہری آنکھ سے مشاہدہ کرنے کے علاوہ باطن کی آنکھ سے بھی دیکھا۔ وہ اپنے قاری کی انگلی تھام کر چشم ِ تصور کی مدد سے ماضی کے جھروکوں میں جا کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور تاریخی ادوار میں جھانک کر اپنے قاری کے ہمراہ لوٹ آتی ہیں۔
ان کے ایران کے سفرنامے کے بارے میں میں بطور خاص یہ کہوں گا کہ ’’بوستانِ ایران‘‘ افسانوی انداز میں تحریر کردہ سفرناموں کی فہرست میں اپنا مقام بنا چکا ہے۔ اندازِ تکلم جدا ہے جو ایک منجھے ہوئے قلم کار کی چغلی کھاتا ہے۔ اندازِ تحریر سہل، معلوماتی اور دلچسپ۔ تحریر میں روزمرہ اور محاورے کا اس قدر عمدگی سے برتائو کیا گیا ہے جوقاری کو آخر تک کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسلامی برادر ملک اور کسی قدر مشترکہ، تہذیبی، ثقافتی، تاریخی اور جغرافیائی بندھنوں کے سبب پاکستان اور ایران کے ان جملہ شعبوں میں مثبت تقابلی جائزہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس سفرنامہ میں بھی ان کے دیگر سفرناموں کی طرح تاریخ، فن، جغرافیہ، سیاست اور سماجیات کے موضوع بطورِ اتم موجود ہیں۔
ان کا منفرد اسلوب، خیالات کی پاکیزگی، ندرتِ ادا، محاورات اور روزمرہ کا عمدہ چناؤ انہیں ان کے ہم عصر سفرنامہ نگاروں کی اگلی صفوں میں کہیں جا کھڑا کرتا ہے۔
مشرف مبشر کے سفرنامے ایک سیّاح کے فطری تجسس اور ایک بے چین روح کی تصاویر ہیں۔ ان کے سفرناموں میںتخلیقی فضا اور فکر انگیز عنصر ملتا ہے۔ ان کے سفرناموں میں ایک سچے سیّاح کا اضطراب و تجسّس اورایک آزاد پنچھی کی وارفتگی موجود ہیں۔ سفرنامے میں صحافیانہ اندازکی بجائے ادیبانہ اسلوب بھی پیدا کیا۔ بعض مقامات پر ان کا انداز صحافیانہ ہوجاتاہے۔ اس کی ایک وجہ سفرنامے کو ڈائری کے انداز میں لکھنا بھی ہے۔ کہیں سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کو پیش کرتے ہوئے تلخ بھی ہوجاتی ہیں لیکن اس سفرنامے میں تاثرات اور داخلی کیفیات کی موجودگی اور بے ساختہ انداز نے انہیں ایک مختلف اور جدید انداز کا سفرنامہ نگار بنا دیا ہے۔