معظمہ تنویر کا افسانوی مجموعہ ’’قلعہ بند شہزادی‘‘ – ڈاکٹر مقصود جعفری

اُردو افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں میں پریم چند، کرشن چندر، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، سعادت حسن منٹو اور منشا یاد اور اشفاق احمد قابلِ ذکر ہیں۔ محترمہ معظمہ تنویر صاحبہ نے اپنے افسانوں کی کتاب ’’قلعہ بند شہزادی‘‘ بطورِ تحفہ مرحمت فرمائی۔ تبصرہ کی فرمائش مزید ہوئی۔ کتاب اتنی دلچسپ ہے کہ دلپذیر اور نظر افروز ہوئی۔ ہر افسانہ سبق آموز ہے۔ فکر انگیز ہے۔ زندگی کے حقائق کو نہایت ادبی، علمی اور فکری سلیقے اور قرینے سے یوں رقم طراز کیا ہے کہ بقولِ علامہ اقبال:
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
یا ساحر لدھیانوی کے الفاظ میں اِن افسانوں کے بارے میں یوں کہا جا سکتا ہے:
دُنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کُچھ دیا ہے مجھ کو وہ لوٹا رہا ہوں میں
زبان و بیان کے اعتبار سے طرزِ تحریر اردو ادب کے کلاسیکل اساتذہ کا رنگ و آہنگ ہے۔ میر امن، فرحت اللہ بیگ اور محمد حسین آزاد کی فارسی آمیز تحریر کی طرح اِس کتاب میں بلا کی ادبی چاشنی ہے۔ فارسی کے محاورے نقل کیے گئے ہیں جو مصنفہ کی فارسی زبان پر گرفت کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں ہندی زبان کی مٹھاس نے اِن کی تحریر کو شیریں بنا دیا ہے. گویا فارسی اور ہندی زبان کے سنگم نے دو آتشہ بنا دیا ہے۔ اِس کتاب کے آخری افسانہ ’’قلعہ بند شہزادی‘‘ جو کہ کتاب کا عنوان بھی ہے، اُس میں ہندی زبان کے الفاظ کا بکثرت استعمال اِس کے حُسنِ بیان کو چار چاند لگا دیتا ہے- فارسی میں شیخ سعدی کی گُلستانِ سعدی اور انگریزی میں بیکن کا طرزِ تحریر جملوں کے اختصار و ایجاز کے شہکار ہیں۔ کوزے میں دریا بند ہے اور قطرے میں بقولِ مرزا غالب دریائے دجلہ کا نظّارہ دکھایا گیا ہے۔ اِس کتاب کے بعض فقرے ضربُ الا مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ چند سطور بطور مُشتے از خروارے ملاحظہ کیجیے:
”وہ جتنا قریب تھا اُتنا رقیب تھا.‘‘ ”وہ لب بستہ تھی، میں لب تشنہ تھا.‘‘ ”قلم اٹھانا ایک عظیم ذمہ داری ہے اور الفاظ امانت ہیں.‘‘ ”یہ ادب پروری تو آپ کے لیے محض فارغ وقت گزارنے کا ایک مشغلہ ہے.‘‘ ”چاہِ ذقن گویاآبِ حیات کا چشمہ ہے.‘‘ ”اُس کی آہِ نیم کش جاں سوز تھی.‘‘ ”حُسن سراسر میرے جسم میں نہیں، میری سوچ میں ہے.‘‘ ”اے شاعرِ زماں اب غزل کا مفہوم بدل ڈالو.‘‘ ”آنسو گنہگار کے لیے کتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں۔ میں اِس بخشش کی قدر پہلے نہیں جانتا تھا.‘‘ اِس قسم کے متعدّد جملے مصنفّہ کی فکر اور نظریہ کے عکّاس ہیں۔
کتاب میں کئی موضوعات کو ادبی انداز میں زیرِ بحث لایا گیا ہے جن میں مزدوروں اور خواتین کے استحصال پر ادیبانہ اور دانشمندانہ انداز میں تنقید ہے۔ہر افسانہ ”ہر گُلّے را رنگ و بُوئے دیگر است‘‘ کا آئینہ دار ہے۔ افسانہ ”امر لوک‘‘ تہذیبِ حاضر کی خوں ریزیاں اور عہدِ آئیندہ میں انسانی اقدار کی ترویج اور آزادی کی نوید ہے۔ آپ نے ”نئے زمانے کا نیا انسان‘‘ کا تصوّر دیا ہے۔ گویا بقولِ علامہ اقبال؀
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
اِس افسانہ میں ”حصارِ ذات کے قیدی‘‘ کا ذکر ہے۔ حصارِ ذات کا قیدی متکبّر و مستکبر بھی ہو سکتا ہے اور محزون و مجنون بھی۔ میرا ایک شعر ہے؀
توڑ کر دیکھو حصارِ ذات کو
ہر بشر اندر سے ہے ٹُوٹا ہوا
افسانہ ”پٹ رانی‘‘ میں ایک جولاہن بادشاہ نے ملکہ بنا لی مگر وہ اُس کے دل کو نہ جیت سکا وہ ملکہ بن کر بھی ناخوش تھی کیوں کہ اُس کا ذوق اور ہنر اُس سے چھِن گیا تھا۔ گویا ”کُل شیئ یرجع الٰی اصلہ.‘‘ افسانہ ”سہیلی‘‘ ایک سوتیلی ماں کی سوتیلی اولاد پر داستانِ ظلم و ستم ہے۔ افسانہ ”پیاسا سمندر‘‘ میں گو محبّت کے ثبات اور شادی کے اثبات کی اہمیّت کو اجاگر کیا گیا ہے لیکن عورت کی روایتی شناخت اور اُس کی حُسن پرستی کے بجائے عورت کی اصلی شناخت یعنی عورت کی ذات کی شناخت اُس کی فکری اور علمی حیثیّت کے بطور کرائی گئی ہے۔ ایک خاتون جو کسی محکمہ میں ملازمت کرتی ہیں اور وہ گھریلو معاملات سے بیگانہ ہے ۔ خاوند سے اُس جذباتی ربط سے نا بلد ہیں جو مشرقی اور نسائی خوائص ہیں۔ وہ اکلوتے بیٹے کی پرورش کرنے کی بجائے اُسے ڈے کئیر (Day Care Centre) میں روزانہ صبح چھوڑ آتی ہے اور شام کو دفتر سے واپسی پر اُسے وہاں سے لیتی ہے۔ اِس مغربی طرزِ معاشرت پہ خاوند نالاں ہے۔ بیوی خاوند کو دقیانوسی اور روایت زدہ سمجھتے ہوئے تہذیبِ جدید کو مقصدِ حیات اور طرزِ حیات گردانتی ہے۔ گویا تہذیبوں کا تصادم ہر گھر میں نفاق و افتراق کا باعث بن چُکا ہے۔
اِس کتاب میں تیرہ افسانے ہیں اور ہر افسانہ اپنے دامن میں پیغامِ نو سمیٹے ہے۔ کتاب کا آخری افسانہ ”قلعہ بند شہزادی‘‘، کتاب کا سرنامہ، ایک دیو مالائی طلسماتی کہانی ہے۔ ایک شہزادی کو ایک جادو گر نے ایک جنگل میں ایک قلعہ میں قید کر رکھّا ہے۔ اِس افسانہ میں ایک جگہ مصنفّہ کارِ دنیا کو کارِعقل و ہوش اور عشق کو کارِ جنوں قرار دیتے ہوئے لکھتی ہیں- ”عورت امن و محبّت کی پیامبر ہے.‘‘ شہزادہ گرفتارِ محبّت ہوتا ہے اور شہزادی سے اقرارِ محبّت بہ صد خلوص کرتا ہے اور آنسوؤں کی مالا اُس کے زیبِ گُلو کرتا ہے۔ شہزادی گریہ کُناں اُسے بتاتی ہے کہ وہ وہاں سے چلا جائے بصورتِ دیگر جادو گر دونوں کو قتل کر دے گا۔ شہزادہ زخم خوردہ ، فغاں بر لب وہاں سے چلا جاتا ہے اور پھر اِس شعر کے مصداق بقیّہ زیست گزارتا ہے؀
تُم جو گُل کر گئے ایک تمنّا کا چراغ
محفلِ زیست کی سب شمعیں بجھا دیں میں نے
بظاہر تو یہ ایک طلسماتی کہانی ہے مگر اِس میں حقیقی زندگی کی ایک المناک حقیقت بیان کی گئی ہے۔ یہ کہانی ایک تمثیل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اہلِ زر و زور نے عورتوں کو زر خرید لونڈیاں بنائے رکھا ۔ حرم سجائے لیکن عورتوں کے دلوں کی دُنیا ویران کر دی۔ خواتین کو اُن کے حقوق سے محروم رکھّا۔ آج بھی کئی رجعت پرست معاشروں میں عورتیں حرم کے اشنان میں زندہ جل رہی ہیں۔
معظمہ تنویر کی یہ کتاب اُردو افسانوں میں ایک آوازِ رحیل بھی ہے اور بانگِ درا بھی ہے۔ یہ اردو کے افسانوی ادب میں گراں قدر اضافہ ہے.