ایک زمانہ تھا کہ گھر گھر کوئی نہ کوئی رسالہ یا ڈائجسٹ ضرور آیا کرتا تھا. خواتین کے لیے ڈائجسٹ کی بہت اہمیت ہوا کرتی تھی کیوں کہ ان کا زیادہ تر وقت گھر میں گزرتا تھا. تفریح کے دیگر ذرائع بہت کم تعداد میں میسر تھے. ڈاکٹر تنویر انور خان نے اسی دور میں لکھنے کا آغاز کیا اور ”آنچل‘‘، ”پاکیزہ‘‘، ”حور‘‘ اور نجانے کتنے رسالوں میں اپنی نگارشات کا جادو جگایا اور اپنی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں سے قارئین کے ایک بڑے حلقے کو متاثر کیا. ان کی کتاب ’’وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی‘‘ چھ عمدہ ناولٹ کا مجموعہ ہے. اس مجموعے میں ”تہہ خاک‘‘، ”بیماری دل‘‘، ”دیمک‘‘، ”کشکول‘‘، ”سرخ حویلی‘‘ اور ”وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی‘‘ جسے اعلیٰ ناولٹ شامل ہیں. ”تہہ خاک‘‘، عمیر اور ثوبیہ کی زندگی کے دردناک اور المناک موڑ کی کہانی، یہ دو زندگیوں کے جوار بھاٹے کی داستان ہے جو نہایت عمدگی سے اپنے انجام کو پہنچتی ہے. یہ ناولٹ کوئٹہ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے اور چوں کہ میرا تعلق پاکستان کے خوب صورت شہر کوئٹہ سے ہی ہے، اس لیے اس کہانی نے مجھے زیادہ متاثر کیا. ”بیماری دل‘‘ دو معالجین، شافعیہ اور طلحہ کی سرگزشت ہے. شافعیہ کی زندگی کا غم انگیز اختتام طلحہ کو توڑپھوڑ کر رکھ دیتا ہے پھر ڈاکٹرعافیہ ایک مسیحا کی مانند آتی ہے اور طلحہ کو بکھرنے سے بچا لیتی ہے. ایک مرحلے پر عافیہ، شافعیہ کے آخری الفاظ ڈاکٹر طلحہ کو بتاتی ہے تو دنیا سے جانے والی کی قدر و منزلت اس کے دل میں بے حد بڑھ جاتی ہے. یہاں مصنفہ کہانی کو ایک اور ماہرانہ رخ دے کر اختتام کی طرف لے جاتی ہیں. معاشرتی کہانی ان کے اسلوب تحریر کا ایک خاص وصف ہے. ان کی تحریر میں سادگی، سلاست اور بلا کی روانی ہے جو قارئین کو متوجہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے. مصنفہ کے افسانوی کردار، عمومی طور پر شہری ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی اس کتاب میں شامل ناولٹ ہماری شہری سماجی زندگی کی جھلکیاں اور مسائل اجاگر کرتے محسوس ہوتے ہیں. جن میں ادبی حسن اور بانکپن اپنے پورے جوبن پر دکھائی دیتا ہے. شہری زندگی کے تصنع، تکلفات اور سجاوٹ بھی ان کی افسانوی تحریر میں اس حسن خوبی سے شامل ہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں پاتا. مصنفہ ایک مدت سے اردو افسانوی ادب میں سرگرم عمل ہیں. انہیں مکالمہ نگاری کے لوازمات سے خوب آگاہی حاصل ہے. ان کی زیر تبصرہ کتاب میں اکثر مقامات پر ایسے مکالمے موجود ہیں جو احساس کے تاروں کو جھنجھوڑنے کی قوت رکھتے ہیں. کتاب میں شامل ناولٹ ”وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی‘‘ کہانی کی عمدہ بنت اور لاجواب مکالمہ کاری کے ساتھ ساتھ اس قدر طبی اصطلاحات اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے کہ پڑھنے والے کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ کسی پیشہ وارانہ مہارت کے حامل معالج کا ادبی فن پارہ ہے. ویسے ڈاکٹر صاحبہ کے کئی افسانوں اور ناولٹ میں ڈاکٹر کا کردار کہیں نہ کہیں شامل ضرور دکھائی دیتا ہے. میری دانست میں اس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا مشاہدہ کافی گہرا اور تیز ہے، وہ حساس ہیں اور وہ اپنے ارد گرد گرد بکھرے حقیقی کرداروں سے کہانیاں اخذ کرنے میں مہارت رکھتی ہیں. ان کے ناولٹ میں شہری زندگی کی چمک دمک اور ظاہری رکھ رکھاؤ کے مناظر بھی دکھائی دیتے ہیں اور کردار شہری زندگی کے مجسم جیتے جاگتے ایسے کردار معلوم ہوتے ہیں جو ہمارے آس پاس موجود ہوں. محترمہ تنویر انور خان کی اس کتاب میں شامل تمام ناولٹ ادبی اور فنی نقطہ نظر سے شاہکار کہے جا سکتے ہیں. ڈاکٹر صاحبہ اپنی جاندار تحریروں کے باعث اردو کے افسانوی ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں. ان کی ادبی قدوقامت کسی تعارف کی محتاج نہیں.
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق