’’روبی کے دیس میں‘‘، ڈاکٹر محمد اقبال ہما کا شاہکار – محمد اکبر خان اکبر

ڈاکٹر محمد اقبال ہما کے اس سفرنامے کا نام کافی حد تک رومانوی سا معلوم ہوتا ہے، البتہ ورق گردانی سے یہ عقدہ وا ہوتا ہے کہ روبی کوئی نسوانی کردار نہیں بلکہ آزاد کشمیر کے پہاڑوں میں پنہاں قیمتی پتھر ہے. کتاب کا سرورق نہایت دل نشین منظر پیش کرتا ہے. قاری کتاب کے اوراق پلٹتا ہے تو انتساب دیکھتے ہی کشمیر کے شہداء کا لہو بے ساختہ یاد آجاتا ہے. کتنا خوب صورت خطہ ارض ہماری کوتاہیوں، کمزوریوں، نااتفاقی، عالمی قوتوں کی بے التفاتی اور غیروں کی سازشوں سے آج کفر کے قبضے میں ہے جس کو ہمشیہ ہمشیہ کے لیے اپنے پاس رکھنے کا مکروہ کھیل کھل کر کھیلا جا رہا ہے. مقبوضہ کشمیر کو دنیا کے سب سے بڑے عقوبت زدہ زندان کا روپ دیا جا چکا ہے. ہم مصلحتوں اور پروپیگنڈہ کے شکار لوگوں کو وہاں کی بڑی بڑی شاہراہیں، شاندار ریلوے نظام اور مضبوط انفراسٹرکچر ہی دکھائی دیتا ہے. وہاں ہزاروں سالوں سے رہنے والوں کی قلبی بے چینی، ان کی جبرِمسلسل سے لبریز زندگی شاید ہم دیکھنا ہی نہیں چاہتے. وہاں پچاس لاکھ سے زائد ہندوؤں کو بسانے کے لیے ڈومیسائل دیے جا چکے ہیں. مسلمانوں کی انتخابی نشستیں کم اور قبضہ گیروں کی بڑھائی جا چکی ہیں تاکہ رفتہ رفتہ اس جنت نظیر خطے کی آبادی میں ہندوؤں کی اکثریت ہو جائے اور پھر مسلمانوں کا جو حال ہندوستان کے دیگر علاقوں میں ہے، وہی کشمیر میں کیا جا سکے. ہندوستان کو کشمیریوں کی نہیں کشمیر کی ضرورت ہے. کتنی افسوس ناک بات ہے کہ کشمیر کے وسائل پر کفار کو ہاتھ صاف کرنے کی کھلی آزادی ہے جب کہ وہاں کے جنگلات میں صدیوں سے آباد قبائلیوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے. بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی. سفرنامے کی طرف واپس چلتے ہیں. انتساب کے بعد مصنف کی عرض پڑھتے ہیں اور آگے چلتے ہیں. ’’روبی کے دیس میں‘‘ آزاد کشمیر کے دلکش نظاروں سے روشناس کرواتا ایک اعلٰی سفرنامہ ہے. مصنف کی تحریر میں برجستگی اور مزاح کا عنصر سفرنامہ پڑھنے کے شائق کو مرحوم ابن انشاء کی یاد ضرور دلاتا ہے. ڈاکٹر محمد اقبال ہما اپنے پرلطف اسلوب میں سفر کے حالات تحریر کرتے چلے جاتے ہیں اور پڑھنے والے کو متحیر کرتے جاتے ہیں. ان کے اس سفرنامے میں مکالماتی اور بیانیہ انداز تحریر کی آمیزش پر لطف ہے. اس تصنیف میں مصنف نے ابواب کے عنوانات بھی کافی حد تک شاعرانہ رکھے ہیں. ذرا ملاحظہ فرمائیں. جاتی رتوں کے دل نشیں منظر ہی دیکھ لیں، یہ دیس ہے روبی کا انمول خزانہ ہے، جہاں بھی گرتا ہے زندہ لہو مہکتا ہے، ابلے آلو بھلا نہ پاؤ گے، یہ حیدر کے اشارے ہیں کبھی خالی نہیں جاتے، ہر گام تھا اڑنگ میں اشعار کا عالم. مصنف کے ادبی ذوق کا اندازہ عنوانات دیکھ کر ہی ہو جاتا ہے. مصنف جن راہوں سے گزرا ہیں، جن جن مقامات پر سفر کی صعوبتیں براداشت کی ہیں، ان میں سے اکثر مقامات میرے دیکھے ہوئے ہیں. چند سال قبل مجھے بھی مظفر آباد کیل، اڑنگ کیل اور تاؤ بٹ کی خوبصورت وادیوں کے سفر کا موقع میسر آیا. ایک مقام پر سلائڈنگ کے باعث پوری رات کوسٹر میں گزارنا پڑی جو ایک ایسے مقام پر پھنس چکی تھی جہاں ایک طرف گہرائی میں دریائے نیلم کی لہریں تھیں اور دوسری جانب بلند و بالا پہاڑ، جہاں سے کسی بھی وقت بڑے بڑے پتھروں کی برسات ہو سکتی تھی. رہی سہی کسر برستی ہوئی بارش نے پوری کر دی تھی. ٹھنڈک اور برسات کے باعث کوسٹر سے باہر بھی نہیں جایا جا سکتا تھا اور مسبب الاسباب کے بھروسے پر اندر بیٹھ کر رات گزارنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا. یہ سفرنامہ پڑھ کر اس سفر کی یادوں نے بھی انگڑائی لی اور اس کے مطالعے نے میرے دل کو بہت شاد کام کیا. مصنف کہنہ مشق سفرنامہ نگار ہیں جنہوں نے شمال کے کئی اسفار کے احوال کو الفاظ کی صورت میں ہم تک پہنچایا ہے. مصنف زبان و بیان پر خوب قدرت رکھتے ہیں اور ندرت خیال کی دل آویزی سے عبارت کی دلکشی میں اضافہ کرتے جاتے ہیں. ڈاکٹر محمد اقبال ہما کی منظر نگاری، جزئیات نگاری کا پرتو محسوس ہوتی ہے. اس قدر رواں اور شستہ تحریر قاری کے دریچہ دل پر دستک دیتی محسوس ہوتی ہے. حقیر، فقیر، بندہ پر تقصیر اسیر نفس شریر کو یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ اس نے ان کا یہ پہلا سفرنامہ پڑھا ہے. یہ میری کم علمی، بدنصیبی اور سستی ہے کہ اتنے عرصے ایک اچھے مصنف کی تحریر سے محروم رہا.

’’روبی کے دیس میں‘‘، ڈاکٹر محمد اقبال ہما کا شاہکار – محمد اکبر خان اکبر” ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ۔ مجھے ڈاکٹر محمد اقبال ہما صاحب کے بارے میں معلومات چاہیے ۔ یعنی تاریخ پیدائش ،تعلیم، ملازمت وغیرہ کے بارے میں ۔ شکریہ

تبصرے بند ہیں