بچوں کے لیے اخلاقی کہانیوں پر مشتمل، صفیہ ہارون کی کتاب، ’’پریوں کا گھر‘‘ – ذیشان اکبر

کہانی سننا اورپڑھنا انسان کی فطرت میں ازل سے شامل ہے۔ اس میں عمر، رتبے اور صنف کا تضاد موجود نہیں ہے۔ ہر ایک انسان کہانی میں دلچسپی رکھتا ہے اور کہانی سننا پسند کرتا ہے۔ ہر عمر اورہر طبقے کے لیے خاص کہانیاں اور خاص انداز ہوتا ہے۔ بچے کہانی پڑھنے اور سننے میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ پہلے پہل گھر کے بڑے بزرگ اکثر رات کو سونے سے پہلے بچوں کو کہانیاں سناتے تھے۔ اب یہ رواج آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ ہر شخص اپنی زندگی میں بہت مصروف ہو چکا ہے۔ ٹیکنالوجی نے بچوں کو بڑوں سے دور کر دیا ہے۔ بچے اپنی زندگی میں مگن ہیں اور بڑے بھی مصروف ہو چکے ہیں۔ اب ایک دوسرے کو وقت دینا اور کہانیاں سنانا بہت مشکل بن چکا ہے۔
جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر مختلف لکھاریوں نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ ان لکھاریوں میں ایک نمایاں نام ”صفیہ ہارون‘‘ کا بھی ہے۔ محترمہ نے بچوں کے لیے کہانیوں کا ایک مرقع ”پریوں کا گھر‘‘ کے عنوان سے سجا رکھا ہے۔ انھوں نے اس مرقع میں 16 کہانیوں کی صورت میں بچوں کے لیے بہترین تحفہ پیش کیا ہے۔ صفیہ ہارون نے سادہ اور آسان الفاظ میں بچوں کو سمجھانے اور ان کو بہترین زندگی گزارنے کے مختلف طریقے اورمراحل بتائے ہیں۔ کہانی کے ذریعے سمجھانا بچوں کے لیے آسان اور دلچسپ ہوتا ہے کیوں کہ بچے کہانیوں میں ہی دلچسپی لیتے ہیں۔
جدید دور میں بچوں کے ذہن پر شروع سے ہی ایک دھن سوار ہو جاتی ہے کہ وہ امیر کیسے بنیں گے اور کس طرح وہ دولت مند بن کر عیش والی زندگی گزاریں گے؟ ان کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ جو کچھ وہ ڈراموں وغیرہ میں دیکھتے ہیں وہ سب دھوکہ اور فریب ہوتا ہے۔ ان کو یہ بات سمجھانے کے لیے مصنفہ نے ”جادوئی کیتلی‘‘ کے عنوان سے کہانی لکھی، جس میں انہوں نے بچوں پر واضح کیا ہے کہ انسان کا سکون زیادہ دولت میں نہیں بلکہ سکون صرف محنت و مشقت میں ہی ہے۔ اس کہانی میں بتایا گیا ہے اور بچوں کو اچھےانداز میں سمجھایا گیا ہے کہ انسان کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتا۔ کتاب کی پہلی کہانی پڑھتے ہی مصنفہ کی کوشش کا علم ہو گیا تھا کہ انہوں نے کہانیاں خاص مقصد کے لیے ہی لکھی ہیں۔
بحیثیت مدرس میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ بہت سے بچے اپنے اساتذہ سے جس انداز سے پیش آتے ہیں یا ان سے جس انداز سے باتیں کرتے ہیں وہ اخلاقی طور پر درست نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اساتذہ بھی بچوں کے ساتھ ایسے پیش آتے ہیں جیسے وہ تعلیم یافتہ ہی نہیں۔ صفیہ ہارون خود بھی درس وتدریس کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو ان تمام مسائل کا علم ہے۔ انھوں نے اساتذہ اور بچوں کو سمجھانے کے لیے ”عائزہ کی ذہانت‘‘ کے عنوان سے کہانی لکھی جس میں انہوں نے دو اساتذہ کے مسائل کے حوالے سے لکھا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ اساتذہ کو اپنے مسائل آپس میں حل کرنا چاہیں اور بچوں کے سامنے آپس کے مسائل کا تذکرہ نہیں کرنا چاہیے۔
کتاب کا نام ”پریوں کا گھر‘‘ جس کہانی کی وجہ سے رکھا گیا ہے، اس کہانی میں مصنفہ نے ماحول کی صفائی ستھرائی اورتمام مخلوقات کا خیال رکھنے کا درس دیا ہے۔
صفیہ ہارون صاحبہ نے بچوں پر واضح کیا ہے کہ ہر بچے میں ایک صلاحیت موجود ہوتی ہے، بس اس صلاحیت کو سامنے لانا چاہیے۔ کہانی نویس نے ہر کہانی میں بہت سے موضوعات کو سمو کریہ بات واضح کی ہے کہ ان کا تجربہ، مشاہدہ اور مطالعہ بہت وسیع ہے۔ ان کی کہانیوں میں اہم موضوعات ایمانداری، حقدارکو حق دینا، بچوں کو بے جا لاڈ دینا، جھوٹ کا انجام، محنت کا صلہ، بڑوں کی باتوں پرعمل کرنا وغیرہ موجود ہیں۔ مصنفہ نے یہ بات واضح کی ہے کہ بچوں کو بڑوں کی باتیں غور سے سننا چاہییں تاکہ وہ اس پر عمل کرکے اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔
دعا ہے کہ مصنفہ کا قلم اسی طرح موتی اگلتا رہے اور قاری اس سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ نیا سیکھے۔ ہر وقت دعاگو۔