ظفر محمد خان ظفرؔ کا اولین مجموعہ کلام ’’زرتاب‘‘ میرے سامنے ہے. ظفرؔ صاحب نے ٹونک، راجستھان کے مردم خیز خطے میں آنکھ کھولی. ٹونک کی سرزمین اختر شیرانی کا مسکن رہی ہے، جن کا مکان ظفر محمد خان ظفرؔ کے گھر کے قریب ہی تھا. اگر یہ کہا جائے کہ شاعری ظفرؔ صاحب کو وراثت میں ملی ہے تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ ان کے والد محترم زبیر حیدری منفرد لہجے کے شاعر تھے، جن کا مجموعہ کلام ”جگنو‘‘ حوادثِ زمانہ کی نذر ہوا. ظفرؔ صاحب نے اپنے والد محترم سے شاعری کے اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کی. یہ بھی ایک منفرد اور عجیب بات ہے کہ میدانِ شاعری کے اس شہسوار نے نہ صرف سائنسی تعلیم حاصل کی بلکہ اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور بحیثیت سائنسدان ساری دنیا میں معروف ہوئے.
سائنسدان ہونے کے باوجود انھوں نے ادب سے ناتا جوڑے رکھا اور 1976ء میں ”دبستانِ غزل‘‘ کی داغ بیل ڈالی. وہ اس کے علاوہ ”بزم سائنسی ادب‘‘ جیسی ادبی و سائنسی تنظیم کے روح روان بھی ہیں.
ان کے مجموعہ کلام ’’زرتاب‘‘ کے پہلے تقریباً پونے دو سو صفحات اہلِ نقد و نظر کے تاثرات اور ان کے ابتدائی تعارفی و مختصر سوانحی مضامین پر مبنی ہیں. اس کے علاوہ انہوں نے کتاب کے آخر میں کئی تصاویر اور دستاویزات کی نقول بھی منسلک کی ہیں، جس سے اس مجموعہ کلام کی ضخامت کافی بڑھ گئی ہے. کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنی خودنوشت سوانح عمری لکھتے اور یہ تمام تصاویر، دستاویزات اور عمرِ رفتہ کا مفصل تذکرہ زمانی اعتبار سے تحریر فرما دیتے. میری دانست میں اس مجموعہ کلام کو شاعری اور اس کے متعلق چند ایک مضامین تک ہی محدود رکھنا بہتر تھا.
ظفر محمد خان ظفرؔ کی شاعری کی بات کی جائے تو ہمیں ان کے اس مجموعہ کلام میں شعری اصناف کی ایک کہکشاں دکھائی دیتی ہے جس میں حمد، نعت، رباعی گیت، غزل، سہرا، غزل مسلسل، ہائکیو اور نظم وغیرہ کے رنگ متوجہ کرتی دکھائی دیتے ہیں جو بلاشبہ ان کے فنی رسوخ، پختگی اور قادر الکلامی کا ثبوت ہیں.
ان کی شاعری کئی اعتبار سے ہم عصر شعراء کرام سے منفرد و ممیز ہے. ایک خاص وصف ان کی شاعری میں سائنسی موضوعات کی موجودگی ہے وہ بے حد خوبصورتی سے سائنس کے دقیق اور خشک موضوعات کو اپنی شاعری میں سمونے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں.
زمیں کو چاند دیا چاند کو ستارہ دیا
مرے نصیب کے جگنو کو اک شرارہ دیا
ایک اور شعر دیکھیے:
اتر رہے ہیں زمیں پر شہابِ ثاقب کیوں
ترے نظارے کی ان کو بھی جستجو ہوگی
علوم فلکیات میں ان کی دلچسپی ان کے کئی اشعار سے ہویدا ہے:
خلاؤں کے بھی پر اسرار گھپ اندھیروں میں
بشر کی فکر و نظر سے چراغ جلتے ہیں
آئن سٹائن کی مشہور عالم فکر کو بیان کرنے کا انداز غور طلب ہے:
سفر سیاروں کا درکار ہے اب نوعِ انساں کو
ہے لازم جسم خاکی کو سراپا نور ہو جانا
ان کی شاعری کا دوسرا اہم ترین وصف جذبہ حب الوطنی ہے. وہ قومی جذبے سے سرشار ہیں اور ان کے اشعار سے حبِ وطن کی پھوٹتی ہوئی کرنوں کا ادراک ہر صاحب احساس بآسانی کر سکتا ہے:
شعلے تم انتشار کے بھڑکا رہے ہو کیوں
آتش رہ حیات میں پھیلا رہے ہو کیوں
کاشانہ وطن کے ہر اک بامِ و در پہ آج
پرچم تعصبات کے لہرا رہے ہو کیوں
وہ وطن عزیز کی بدحالی پر نوحہ خواں ہونے کے باوجود امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں:
زمین خاکی ذرہ ذرہ محبتوں کا دیار ہوگا
خدا سے رکھیے امید پیہم کہ عہد نو ساز گار ہوگا
حب وطن کا جذبہ شاعر کی رگوں میں لہو کی مانند دوڑتا ہے. وہ قومی جذبات کی ترجمانی اپنے اعلی اشعار میں کرتے چلے جاتے ہیں:
دلوں کی دھڑکن جگر کا پارہ
ہے کتنا دلکش ہے کتنا پیارا
زمیں پہ جنت کا اک نظارہ
وطن ہمارا وطن ہمارا
مزید اشعار ملاحظہ کیجیے:
یوم آزادی ہے آیا آج پاکستان کا
آو مل کر رخ موڑ دیں ہم. ہر اک طوفان کا
خونچکاں ہے آج کیسا چہرہ پاکستان کا
خوں ہوا ہے قائد اعظم کے صد ارمان کا
ظفر محمد خان ظفرؔ کی شاعری میں کرب، رنج و الم کی پر سوز دنیا بھی دکھائی دیتی ہے. ان کا یہ مجموعہ کلام متنوع قوافی، بلند پروازی اور ان کی فکری و فنی پختگی کی قوی علامات سے لبریز ہے. وہ فن کا اظہار و ابلاغ اپنی دل آویز شاعری سے کرنا جانتے ہیں. مجھے خوشی ہے کہ ان کے مزید مجموعہ ہائے کلام بھی جلد ہی شایع ہونے والے ہیں جو یقیناً شائقین سخن کی دلچسپی کا باعث ہوں گے.