’’جو ٹُوٹ کے بکھرا نہیں‘‘، جبار مرزا کا تاج محل – محمد اکبر خان اکبر

ملک کے نامور صحافی، کہنہ مشق شاعر، محقق اور کئی اعلٰی کتابوں کے خالق مکرم و محترم جناب جبار مرزا صاحب کی تصنیف ’’جو ٹُوٹ کے بِکھرا نہیں‘‘ کے مطالعے موقع میسر آیا. کتاب پڑھنے کا آغاز کیا تو میرے جیسا آدابِ مطالعہ سے عاری قاری بھی گرد و پیش سے مکمل بیگانہ ہو کر اس کے مندرجات میں ایسا کھویا کہ گردش دوراں کا پتا ہی نہ چلا اور چند ہی نشستوں میں کتاب پوری پڑھ ڈالی. میرے خیال میں کسی بھی دلچسپ اور پرلطف کتاب کے لیے سب سے اہم وصف یہی ہے کہ جب قاری اس کا مطالعہ شروع کرے تو ہاتھ سے رکھنا دشوار ہو جائے اور جوں جوں وہ پڑھتا جائے، ‘نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں’ کی طرح اس کی دلچسپی کا عنصر بڑھتا ہی چلا جائے. جناب جبار مرزا کی یہ کتاب اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے.
اس کتاب کا ایک ایک حرف ان کی اپنی مرحومہ زوجہ کی الفت میں ڈوب کر لکھا گیا ہے. زندگی کی سب سے قیمتی متاع کے کھو جانے پر جس کرب سے وہ گزرے ہیں، اس کا شاید تصور ہی کیا جا سکتا ہے. شاہ جہاں نے اگر ممتاز محل کی یاد میں تاج محل بنوا کر ابدیت کی تصویر کھینچی تھی تو جبار مرزا صاحب نے اس کتاب کی صورت میں لفظوں کا ابدی تاج محل تعمیر کر ڈالا ہے.
ان کی تحریر کردہ اس کتاب میں جہاں الفت، محبت، انسیت، لگاؤ، احترام کے رنگ نظر آتے ہیں، وہیں ہمارے معاشرے کے ایک اہم اور پڑھے لکھے طبقے کی دھوکہ دہی، عدم انسانیت، مادیت، خودغرضی اور بے رحمی کی کالک بھی دکھائی دیتی ہے. وطنِ عزیز میں معالجین کی تنخواہیں اور مراعات ویسے ہی بہت زیادہ ہیں لیکن برا ہو فانی دنیا کی اس ہوس کا کہ ان کا پیٹ بھرتا ہی نہیں. ہر سرکاری ملازمت کے حامل ڈاکٹرز نان پریکٹسنگ الاؤنس ہر ماہ باقاعدگی سے وصول کرنے کے باوجود ڈھٹائی اور بے شرمی سے نجی کلینک پر نہ صرف مریضوں کو دیکھتے ہیں بلکہ کچھ تو اس قدر بے حس ہیں کہ سرکاری ملازمت پر جانے کے بجائے انہی اوقات میں کلینک اور نجی ہسپتالوں پر ملازمت کرتے پائے جاتے ہیں. مگر صرف اسی پر بس نہیں ہے کیوں کہ ہوس اور لالچ جب حد سے بڑھ جائے تو بے شمار تعلیمی ڈگریوں اور قابلیت کے باوجود انسانیت دم توڑ دیتی ہے اور حیوانی صفات درندگی کا روپ دھار لیتی ہیں. پھر مسیحا سادہ لوح اور معصوم مریضوں کا خون نچوڑنے والا درندہ لگتا ہے جو بلاجواز تشخیصی ٹیسٹ، ایکسرے، سی ٹی سکین، الٹرا ساؤنڈ کروا کر ان سب سے اپنا کمیشن بٹورتا ہے. بلا ضرورت غیر معیاری دوائیاں تھوک کے سے لکھ کر ان پر کمیشن وصول کرتا ہے. دوا بنانے والی کمپنیوں کے نمائندوں کی جانب سے دیے جانے والے چند ٹکوں اور ٹکٹوں کے عوض اپنے ایمان، اصول اور اس حلف کا بھی سودا کر بیٹھتا ہے جو اس نے ڈاکٹر بنتے وقت اٹھایا ہوتا ہے، کیوں کہ ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں بلا جواز جراحی اور سیکڑوں روپے والی چیز لاکھوں روپے میں فراہم کرکے احسان بھی جتایا جاتا ہے. ظاہر ہے اس میں صرف معالج ہی مجرم نہیں بلکہ اس میں اس پیشے سے وابستہ دیگر افراد بھی ملوث ہیں. جبار مرزا کی یہ کتاب محبت کے معطر گلوں سے لبریز ایک چمنستان، عشقِ مجازی کا معنی خیز جہان اور پرخار گلستان ہے. آپ نے یہ کتاب لکھ کر اپنی شریکِ حیات کی سینتیس سالہ رفاقت کا حق ادا کر دیا ہے. گمان غالب ہے کہ وہ خود ایسا نہیں سمجھتے. وہ ایک سو بیس دن بلاناغہ مرحومہ کی قبر پر دعا کے لیے جاتے رہے اور شاید ہی ان کا کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب وہ اپنی زوجہ محترمہ کے لیے دعا نہ کرتے ہوں.
اس کتاب کے مطالعے سے جہاں نام نہاد مسیحاؤں کی مسیحائی کا اصل رُخ سامنے آتا ہے وہیں عیار و شعبدہ باز پیروں فقیروں کی اصلیت بھی نمایاں ہوجاتے ہے. مرزا صاحب نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر بھرپور علاج معالجہ کی کوشش کی مگر کاتبِ تقدیر نے کچھ اور ہی لکھ رکھا تھا. پیغامِ اجل آجائے تو ساری تدابیر بے اثر ہو جاتی ہیں.
مرزا صاحب کی یہ کتاب جہاں بہروپیوں کی نقاب کشائی کرتی وہیں محسنوں، کرم فرماؤں اور اہلِ دل کے جذبات بھی قاری تک پہنچاتی ہے. ان کی تحریر میں جو روانی اور رعنائی ہے وہ اس کتاب میں اپنے جوبن پر محسوس ہوتی ہے. یہ کتاب شاید واحد کتاب ہے جو اشاعت سے پہلے ہی مقبول ہو چکی تھی. سماجی روابط کی سائٹ پر اس کا چرچا ہنوز باقی ہے. بلاشبہ یہ کتاب محبتوں کے چراغ جلاتی ہے اور نفرتوں سے بچنا سکھاتی ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں