’’سرِشامِ غزل‘‘ بلوچستان کی معروف شاعرہ تسنیم صنمؔ کا دوسرا مجموعہ کلام – محمد اکبر خان اکبر

2010ء کی کسی شام کا ذکر ہے کہ کوئٹہ کی جناح روڈ سے گزرتے ہوئے میں نے ادارۂ ثقافت بلوچستان کی عمارت میں کچھ گہماگہمی سی دیکھی تو میرے قدم بلا ارادہ اس طرف کو مڑ گئے اور میں عمارت کے ہال میں عقبی جانب سے داخل ہوگیا. اندر ایک ادبی تقریب جاری تھی. ادب سے بے پناہ شغف اور شاعری سے فطری لگاؤ کے باعث میں وہاں بیٹھ کر نہایت اطمینان اور پوری دلچسپی سے اس تقریب کے حاضرین و مقررین کو سننے لگا. وہیں میری ملاقات ہمدم دیرینہ اکبر علی ساسولی سے ہوئی اور معلوم ہوا کہ بلوچستان کی ایک معروف شاعرہ محترمہ تسنیم صنمؔ کے اولین شعری مجموعہ کلام ’’کچھ خواب سر مژگاں‘‘ کی تقریبِ رونمائی ہے. اس تقریب میں جناب عرفان الحق صائم، دانیال طریر، نوید حیدر ہاشمی اور دیگر کئی ادیب و شعراء شریک تھے. بعد ازاں جب کوئٹہ کے ادبی حلقوں میں میری کچھ شناسائی ہوئی تو محترمہ تسنیم صنمؔ سے مشاعروں اور دیگر ادبی مجالس میں تواتر کے ساتھ ملاقات ہونے لگی. جب میں انجمن ادب بلوچستان کا رکن بنا تو جناب مرحوم و مغفور عرفان الحق صائم اور ان کی اہلیہ محترمہ تسنیم صنمؔ سے استفادے کا موقع میسر آیا. میں ہنوز محترمہ تسنیم صنمؔ سے اصلاح کا طلب گار رہتا ہوں. ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ’’سرشام غزل‘‘ اسم با مسمٰی ہے کیوں کہ اس مجموعے میں چند ایک نظموں کے علاوہ غزلیات ہی شامل ہیں.

تسنیم صنمؔ صاحبہ بلوچستان کی معاصر خواتین شعرا میں ممتاز و منفرد پہچان رکھتی ہیں. بنیادی طور پر وہ غزل کی شاعرہ ہیں مگر جب ان کی نظموں کو دیکھتا ہوں تو وہاں بھی وہ بلند مقام پر براجمان دکھائی دیتی ہیں. اس مجموعہ کلام میں شامل ان کی کئی لاجواب غزلیں مختلف ادبی تقاریب میں ان سے براہ راست سننے کا شرف حاصل ہوا ہے البتہ اس مجموعہ کلام کی بدولت ان کی بہت سی اور خوبصورت غزلیات بھی پڑھنے کو ملیں.
ان کی غزلوں میں روایتی طرز سخن نمایاں ہے، البتہ ان کے ہاں موضوعات کا تنوع موجود ہے. وہ اپنے اشعار میں محبت کے موتی پرونا خوب جانتی ہیں. وہ اظہار کے قرینے اور سلیقے سے آگاہ ہیں. ان کی غزل میں ایک جذبے کے کئی کئی روپ جھلکتے ہیں اور نئے نئے زاویے آشکار ہوتے ہیں. تسنیم صنمؔ کے اشعار میں لطافت، شائستگی اور نزاکت کا گہرا تاثر پایا جاتا ہے.

کانچ سے جذبے مرے تھے کانچ جیسا دل مرا
اس کے سینے میں مگر مالک نے پتھر رکھ دیا
میں نے چاہا ایک جیسا وقت لیکن سامنے
گردشِ حالات نے کانٹوں کا بستر رکھ دیا

ان کی شاعری کا ایک اور وصف غنائیت ہے. ان کے مصرعے مترنم بحروں سے وجود میں آتے ہیں جسے پڑھنے والا جھومنے لگتا ہے:

گئی رتوں کی اداس شاموں پہ کوئی اچھی کتاب لکھنا
سنہرے حرفوں کے چن کے موتی پھر اس کا تم انتساب لکھنا
ہزار باتیں ہزار قصے بھلا ہی دینے میں عافیت ہے
مگر جو گزری ہے تیرے دل پر اے میرے خانہ خراب لکھنا

اُردو کلاسیکی غزل کے موضوعات کی مانند ان کی غزلوں میں کیفیات ہجر و وصال، کرب رنج و الم کا اظہار دکھائی دیتا ہے:

جسے مشروط ہم سمجھا کیے سورج کے آنے سے
وہ تاریکی تو چھٹتی ہے چراغ دل جلانے سے
سکوں کھویا ہوا زیور جسے مل جائے جیسے بھی
انہیں دل کو دکھانے سے ہمیں بس مسکرانے سے

مزید کچھ اشعار دیکھیے:

بس ایک بات ہوئی زندگی تمام ہوئی
فقط نگاہ بجھی روشنی تمام ہوئی
لٹا لٹا سا تبسم بجھی بجھی آنکھیں
بس اب یہی ہے اثاثہ خوشی تمام ہوئی

ایک اور غزل کا شعر ملاحظہ فرمائیں:

نظر گم سم سبھی اہلِ نظر کے خواب گم سم ہیں
مرے ہر ایک غم میں سب کے سب احباب گم سم ہیں

ان احساسات کے ساتھ ساتھ مسرت و شادمانی امید و رجائیت بھی دکھائی دیتی ہے:

گھوم پھر کر مرا دل اس کو ہی پانا چاہے
جیسے آسیب کوئی پیڑ پرانا چاہے
عمر کا دیکھنے والوں کا نہیں اس کو لحاظ
وہ جو جوڑے میں مرے پھول سجانا چاہے

ان کی شاعری کا خاصا حصہ رومانوی شاعری پر مشتمل ہے. یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں آہنگ، خلوص، پیکر تراشی، جمالیاتی رنگ، علامت نگاری کا گہرا تاثر نمایاں طور پر پایا جاتا ہے. ان کے اسلوب اظہار میں حقیقت کی گہرائیوں کے ساتھ ساتھ تخیل کی بلندیاں بھی موجود ہیں. تسنیم صنمؔ صاحبہ کی شاعری میں طلب جستجو اور جذبات و وجدان کی منفرد دنیا دکھائی دیتی ہے جو کلاسیکی اُردو شاعری کے محاسن میں شامل ہے. ان کے اشعار گہرے احساس، عمیق مشاہدے اور بے مثل حساسیت کا احساس دلاتے ہیں. ان کا شعری سفر بلندیوں کی جانب گامزن ہے ان کا یہ مجموعہ کلام احباب علم و دانش اور شائقین سخن کے لیے نہایت اہم مقام رکھتا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں