ادب کسی کی میراث نہیں اور نہ اس کا تعلق کسی اعلیٰ خاندان کے افراد سے ہے۔ ادب وہ پودا ہے جو کسی بھی فرد کے آنگن میں بلاتخصیص اُگ آتا ہے۔دوسری بات اس کا تعلق نہ مرد کی ذات سے اور نہ ہی عورت کی ذات سے مختص ہے۔ ادب مرد اور عورت کے ہاں بھرپور آشنائی کے ساتھ پرورش پاتا ہے۔ افسانہ نویس، ماہرِ تعلیم، کالم نگار، آزاد نظم گو شاعرہ، محقق، نقاد، مصنفہ اور صدارتی ایوارڈ یافتہ ادیبہ ”صفیہ ہارون‘‘ 4 ستمبر کو ضلع قصور میں پیدا ہوئیں۔ والد کا نام محمد ہارون ہے۔ ان کے سارے گھرانے کا تعلق افواج پاکستان سے ہے، اس لیے ان میں جذبہِ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ صفیہ ہارون نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں اور کچھ عرصہ قریبی سکول میں حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ہی ایم۔اے انگریزی، سرگودھا یونیورسٹی سے ایم۔اردو، ایم۔اے پنجابی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد سے بی۔ایڈ اور سرگودھا یونیورسٹی سے ایم ایڈ کیا ہے۔ منہاج یونیورسٹی سے ایم فل اردو مکمل کرنے کے بعد اب اسی جامعہ سے پی۔ایچ۔ڈی کا آغاز بھی کر چکی ہیں۔
تحقیقی و تنقیدی موضوع پر ان کی کتاب ”ترقی پسند تحریک کے شعرا کی نعتیہ شاعری‘‘ منظرِ عام پر آ کر ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ ان کو اس کتاب پر صدارتی ایوارڈ مل چکا ہے اور مذکورہ کتاب پاکستان کے علاوہ بھارت سے بھی پاریکھ بک ڈپو سے شائع ہوئی ہے۔ ادبِ اطفال کے لیے بھی انہوں نے خدمات سر انجام دی ہیں۔ حال ہی میں صفیہ ہارون کی ادب اطفال پر لکھی کتاب ”پریوں کا گھر‘‘ منظر عام پر آئی ہے۔ ”پریوں کا گھر‘‘ بچوں اور بڑوں دونوں میں یکساں مقبول ہو رہی ہے۔
صفیہ ہارون کی ادبی خدمات کی بنا پر انہیں ابوالحسن ندوی ایوارڈ، ادب اطفال ایوارڈ، فضیلت جہاں گولڈ میڈل سمیت دیگر کئی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے اور اپنی اعلیٰ قابلیت کی بنا پر درجنوں ملکی و غیر ملکی سرٹیفکیٹ حاصل کر چکی ہیں۔ وہ مختلف ویب چینلز کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ انجمنِ نفاذِ اردو کی ضلعی صدر بھی ہیں اور فروغِ اردو زبان و ادب کے لیے اپنی قابلِ قدر کاوشیں سر انجام دے رہی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے وہ معلمہ ہیں اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ریسورس پرسن بھی ہیں۔ آپ نے اردو ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا تصور کیا ہوا ہے۔ صفیہ ہارون غمِ جاناں، غمِ روز گار اور غمِ دنیا سے آزاد اور بے فکر ہو کر بڑے انہماک اور تسلسل سے اردو زبان اور ادب کی ترقی کے لیے کوشاں اور پیش پیش نظر آتی ہیں۔ آپ اپنے تحقیقی مقالہ کے بارے میں خود فرماتی ہیں کہ: ”ترقی پسند تحریک کے شعرا کی نعتیہ شاعری‘‘ یہ میرا ایم۔فل کا تحقیقی مقالہ ہے۔ یہ موضوع مجھے استادِ محترم سید صبیح الدین صبیح رحمانی اور ڈاکٹر فضیلت بانو کی جانب سے تحقیق کے لیے تفویض کیا گیا تھا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ جو لوگ تھے، ان سب کے بارے میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ مذہب سے دور ہو گئے تھے، کمیونسٹ بن گئے تھے، وہ مذہب کی بجائے انسانیت کو زیادہ اہمیت دیتے تھے، ترقی پسندوں نے کسی بھی مذہب و مسلک کے تفرقے میں الجھے بغیر کمزور انسانوں، معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے حقوق کے لیے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ترقی پسندوں کا ماننا تھا کہ مذہب ثانوی چیز ہے، انسانیت سب سے پہلے ہے۔ میں نے اپنے تحقیقی مقالے میں یہ ثابت کیا کہ ترقی پسند اپنے مذہب سے دور نہیں ہوئے تھے، وہ مذہب کو مانتے تھے اور ان کے کلام میں نعتِ رسولﷺ موجود ہے۔ یوں ترقی پسندوں پر مذہب بیزاری کا جو الزام لگایا جاتا ہے، وہ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے۔‘‘
صفیہ ہارون نے بچوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا اور ”پریوں کا گھر‘‘ کے عنوان سے بچوں کی کہانیوں پر مبنی کتاب تخلیق کی۔ آپ نے ادب اور ادیب کے بارے میں شاندار نظریہ پیش کیا۔ آپ کہتی ہیں کہ:
”ادب اور ادیب لازم و ملزوم ہیں۔ ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ادیب کا کردار زیادہ متحرک نظر آتا ہے، اگر ادیب کسی عہد کی نمائندگی کر رہا ہے تو اس کے تمام جملہ پہلوؤں سے واقف ہوتا ہے۔ معاشرے کے کمزور و حساس پہلوؤں پر اس کی کڑی نظر ہوتی ہے۔ وہ بہت عمدگی سے حساس سے حساس موضوع کو بھی موقع بر محل الفاظ کا استعمال کر کے الفاظ کے لبادے میں یوں پیش کرتا ہے کہ برہنہ حقیقتیں بھی آشکار ہو جاتی ہیں اور کسی کی طبیعت پر الفاظ گراں بھی نہیں گزرتے یوں کہ:
کچھ کہا بھی نہیں اور کہ بھی گئے۔ آپ کم عمری میں ادب میں جو تحریک اور محرکات پیدا کر رہی ہیں آنے والے وقت میں نئی نسل اس سے ضرور مستفید ہو گی۔