اشعار کے حوالہ سے چند مشہور غلطیوں کی اصلاح – حنا ہاشمی

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

سید صادق حسین شاہ یکم اکتوبر، 1898ء کو ظفروال میں پیدا ہوئے۔ پیشے کے لحاظ سے سید صادق حسین اُردو شاعر، قانون دان اور تحریک پاکستان کے سرگرم رکن تھے۔ ان کا مجموعہ کلام ’’برگِ سبز‘‘ کے نام سے 1976ء میں اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔

اُردو کا یہ مشہور شعر جو بیشتر اوقات غالباً لفظ عقاب کی وجہ سے علامہ اقبال سے منسوب کر دیا جاتا ہے، یہ دراصل صادق حسین کاظمی کا ہے، جو ان کی قبر کے کتبے پر بھی درج ہے۔

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

مکمل کلام یوں ہے:

تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
کامیابی کی ہُوا کرتی ہے ناکامی دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے
نیم جاں ہے کس لیے حالِ خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کے بچانے کے لیے
چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر
مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے
استقامت سے اٹھا وہ نالۂ آہ و فغاں
جو کہ کافی ہو درِ لندن ہلانے کے لیے
آتشِ نمرود گر بھٹکی ہے کچھ پروا نہیں
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کے لیے
مانگنا کیسا؟ کہ تو خود مالک و مختار ہے
ہاتھہ پھیلاتا ہے کیوں اپنے خزانے کے لیے
دست و پا رکھتے ہیں تو بیکار کیوں بیٹھے رہیں
ہم اٹھیں گے اپنی قسمت خود بنانے کے لیے

صادق حسین شاہ 4 مئی، 1989ء کو شکر گڑھ، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

جی ہاں یہ شعر بہادر شاہ ظفر کا نہیں، سیماب اکبر آبادی کا ہے جو کہ بہادر شاہ ظفر سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ یہ شعر سیماب اکبر آبادی کی شاعری کی کتاب ’’کلیم عجم‘‘ میں درج ہے۔ تو آئیے جانتے ہیں کہ سیماب اکبر آبادی کون تھے!
سیماب اکبر آبادی (پیدائش: 5 جون 1880ء — وفات: 31 جنوری 1951ء) اردو کے نامور اور قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ سیماب آگرہ، اتر پردیش کے محلے نائی منڈی، کنکوگلی، املی والے گھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، محمّد حسین صدیقی بھی شاعر اور حکیم امیرالدین اتتار اکبرآبادی کے شاگرد تھے اور ٹائمز آف انڈیا پریس میں ملازم تھے۔
سیماب نے فارسی اور عربی کی تعلیم جمال‌ الدین سرحدی اور رشید احمد گنگوہی سے حاصل کی۔ سکول گورنمنٹ کالج اجمیر سے الحاق شدہ برانچ سکول سے میٹرک کیا۔ 1897ء میں 17 سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا جس کی وجہ سے ایف اے کے آخری سال میں تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔
1898 میں ملازمت کے سلسلے میں کان پور گئے اور وہیں فصیح الملک داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے۔ 1900ء میں سکینہ بیگم سے شادی ہوئی۔ دیوہ شریف میں حاجی حافظ سید وارث علی شاہ کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ 1921ء میں ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر آگرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور قصرِ ادب کے نام سے ادبی ادارہ قائم کیا۔ ملازمت کے دوران ماہنامہ مرصع ، ماہنامہ پردہ نشین اور آگرہ اخبار کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

تصانیف اور ادبی خدمات:

قصرِ ادب ادارے سے ماہنامہ پیمانہ جاری کیا۔ پھر بیک وقت ماہنامہ ثریا، ماہنامہ شاعر، ہفت روزہ تاج، ماہنامہ کنول، سہ روزہ ایشیا شائع کیا۔ ساغر نظامی جو سیماب اکبر آبادی کے شاگرد تھے، وہ بھی قصر ادب سے وابستہ رہے۔ سیماب کی لکھی کتابوں کی تعداد 284 ہے جس میں 22 شعری مَجمُوعے ہیں جن میں ’’وحی منظوم‘‘ بھی شامل ہے جس کی اشاعت کی کوشش 1949ء میں ان کو پاکستان لے آئی جہاں کراچی شہر میں 1951ء میں ان کا انتقال ہوا۔

مثنوی روم کا منظوم اُردو ترجمہ و ترميم:
سیماب نے مولوی فیروز الدین کی فرمائش پر مثنوی مولانا روم کا منظوم اردو ترجمہ شروع کیا جس کے لیے وہ لاہور منتقل ہوئے اور اپنا ادارہ قصرِادب بھی لاہور ہی لے آئے۔ مثنوی مولانا روم کو فارسی سے اسی بحر میں اردو میں منظوم ترانے کام شروع کیا اور اس کا نام ”الہام منظوم‘‘ رکھا. مولوی فیروز الدین کے بقول انہوں نے مثنوی روم کا منظوم اردو ترجمہ امیر مینائی سمیت کئی نامور شاعروں کے سپرد کرنا چاہا مگر یہ مشکل کام ان میں سے کسی کے بس کا نہ تھا۔

کرشن گیتا:
ہندووں کی مذہبی کتاب بھگوت گیتا کے کچھ حصوں کا منظوم ترجمہ ”کرشن گیتا‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔

وحی منظوم:
سیماب اکر آبادی نے 1944ء کے شروع میں قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور دس ماہ میں منظوم ترجمہ مکمل کر کے علما کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ستاروں کا ترجمہ ایک ہی بحر میں منظوم کیا گیا. حاشیہ پر ضروری تشریح دی گئی علما کے تعریفی کلمات کتاب کے آخر میں شامل کیے گئے قرآن مجید کا یہ منظوم اردو ترجمہ “وحی منظوم‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ 1981ء کو اسلام آباد میں پندرہویں صدی ہجری کے سلسلہِ تقسیم انعامات میں قرآن پاک کے چار مختلف زبانوں کی کتابوں کو انعام سے نوازا گیا۔ “وحی منظوم‘‘ کتاب سرفہرست تھی۔

سیرتِ نبویﷺ پر کتاب:
1950ء میں شیخ عنایت اللہ کی درخواست پر سیرتِ نبیﷺ پر مختصر اور انتہائی جامع کتاب ڈیڑھ ماہ کے مختصر عرصہ میں جدید اسلوب اور دلنشین پیرائے میں لکھ کر پیش کردی۔

شاعری:
سیماب اکر آبادی نے 1892ء سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور 1898ء میں مرزا خان داغ دہلوی کے شاگرد ہو گئے تھے۔ 1923ء میں قصر الادب کی بنیاد رکھی اور پہلے “پیمانہ‘‘ اور بعد میں 1929 میں “تاج‘‘ اور 1930 میں “شاعر‘‘ شائع کرنا شروع کیے۔ پیمانہ 1932ء میں بند ہو گیا تھا۔
سیماب کا پہلا مجموعہِ کلام “نیستاں‘‘ 1923ء میں چھپا تھا۔ 1936ء میں ”دیوانِ کلیم عجم‘‘ شائع ہوا اور اسی سال نظموں کا مجموعہ ”کارِ امروز‘‘ منظرِ عام پر آیا۔

شاگرد ترميم:
سیماب کے تقریباً ڈھائی ہزار شاگرد تھے جن میں راز چاندپوری، ساغر نظامی، ضیاء فتح آبادی، بسمل سیدی، الطاف مشہدی اور شفا گوالیوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ سیماب اکبر آبادی کو ”تاج الشعرا‘‘اور ”ناخدائے سخن‘‘ بھی کہا گیا۔ داغ دہلوی کے داماد سائل دہلوی سیماب کو جانشینِ داغ کہا کرتے تھے۔