معروف مصنفہ، سفر نامہ نویس اور مورخ، بیگم اختر ریاض الدین کا سفر نامہ ’’دھنک پر قدم‘‘، ایک جائزہ – آمنہ سعید

بیگم اختر ریاض الدین کی پیدائش 15 اکتوبر، 1928ء کو کلکتہ میں ہوئی۔ آپ نے اپنی تعلیم کا سفر کلکتہ میں جاری رکھتے ہوئے ایم اے انگریزی کی سند حاصل کی اور شعبہ درس و تدریس سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی اور اُردو میں کئی مضامین تحریرکیے۔ آپ کی شادی سی ایس پی افسر ریاض الدین سے ہوئی۔ جناب ریاض الدین کوسرکاری فرائض کے سلسلے میں مختلف ممالک کا دورہ کرنا پڑتا تھا تاہم بیگم صاحبہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ نہ صرف مختلف اَسفار کیے بلکہ تخلیقی و ادبی شوق کی وجہ سے سفرنامے بھی تحریر کیے۔

بیگم اختر ریاض الدین اپنے سفر ناموں میں یورپ، ایشیا اور امریکا کے ممالک کے متعلق ’’سات سمندر پار‘‘ اور”دھنک پر قدم‘‘ تخلیق کیے جو آپ کی وجہ شہرت بنے۔ ’’دھنک پر قدم‘‘ آپ کا دوسرا سفرنامہ ہے جو مصنفہ نے ہوائی، لندن، میکسیکو، سان فرانسسکو، نیو یارک اور ہانگ کانگ وغیرہ کے سفر کی یاد میں 1969ء میں شائع کیا. اس کتاب میں ان علاقوں کے احوال ایسے قلم بند کیے گئے جو ایک حقیقی سیاح کی تمام تر خوبیوں سے مزیں ہیں۔ جہاں کہیں گھومنے اور قیام کرنے کا موقع ملا، ان مناظر کو اپنے قلم کے ذریعے کاغذ پر نہ صرف منطبق کیا بلکہ مناظرِ قدرت کے ساتھ ان کی تہذیب و ثقافت کو بھی صفحہ قرطاس پر تحریری صورت میں محفوظ کیا۔
بیگم اختر ریاض صاحبہ چھوٹی چھوٹی جزئیات کو چنتے ہوئے ایسی تصویریں مرتب کرتی ہیں کہ پورا منظر قاری کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ نسوانیت کا انداز سفر نامے میں جابجا ملاتا ہے اور اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ مصنفہ نے اپنے سفرنامہ میں صرف تھیٹروں، عجائب گھروں اور دیگر تاریخی مقامات کو خاص اہمیت نہیں دی بلکہ ایک خاتون ہونے کے ناطے آپ نے ہوٹلوں، گھروں اور باورچی خانوں کو خوب گہری نگاہ سے پرکھتے ہوئے، ان ممالک کےکھانوں میں استعمال ہونے والے مسالہ جات کے اندازے، گھروں میں رکھے گئے سامان اور آرائشی فن پاروں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک خاص انداز میں برتا ہے۔ بیگم صاحبہ لفظوں کو نہایت خوب صورت انداز میں بیان کرتی ہیں۔ اِس بناء پر لاشعوری طور پر خوب صورت، موزوں اور پُرمحل تشبیہات ان کی تحریر کا حصّہ بنتے چلے جاتے ہیں جو آپ کے منفرد اسلوب کی خوبی ظاہر کرتے ہیں۔
سفرنامہ چوں کہ چشم دیدہ واقعات پر مشتمل ہوتا ہے اس لیے اس میں شروع سے آخر تک تسلسل کا ہونا ازبس ضروری ہے۔ بیگم اختر ریاض الدین صاحبہ اپنے سفر ناموں میں مشاہدات اور واقعات کو گڈمڈ نہیں ہونے دیتیں، بلکہ ان مشاہدات اور واقعات کوبڑی مہارت سے ایک کڑی میں پروتی نظر آتی ہیں۔
جیساکہ ہر فن پارہ مخصوص عائیت کا حامل ہوتا ہے ایسے ہی بیگم اختر ریاض الدین صاحبہ کا سفرنامہ پڑھنے کے بعد ان کی تحاریر سے مزید مستفید ہونے کی خواہش اُجاگر ہوتی ہے۔ اس سفرنامہ میں بے شمار ادبی ، فنی و فکری موضوعات موجود ہیں۔ منظرکشی نہایت عمدہ پیرائے میں کی گئی ہے جسے پڑھنے کے بعد قاری خود کو ان مقامات پر محسوس کرتا ہے۔ ان سب کے باوجود ایک چیز جو سب سے زیادہ منفرد ہے، وہ ہے آپ کا اسلوب، جس کی بناء پر بیگم اختر ریاض الدین صاحبہ کے اس سفرنامہ کو آدم جی انعام سے نوازا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں