”نازش امریکا میں ۔ امریکا ڈائری‘‘، قسط نمبر: 1 – حسنین نازشؔ

حسنین نازشؔ ایک استاد، مترجم، محقق اورسفرنامہ نگار ہیں۔ ان کی ایک تحقیقی کتاب ”اُردو ہے جس کا نام‘‘، افسانوی مجموعہ ”پہلی اُڑان‘‘ اور چار سفرنامے بعنوان ”قاردش‘‘ (سفرنامہ ترکیہ)، ”دیوارِ چین کے سائے تلے‘‘ (سفرنامہ چین)، ”امریکا میرے آگے‘‘ (سفرنامہ امریکا) اور ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘ (یورپ کے 6 ممالک کا سفرنامہ) چھپ کر دادوتحسین پا چکے ہیں۔ ان کے یورپ کا دوسرا سفرنامہ، عمرہ کے سفر کی روداد اور چترال کا سفرنامہ اشاعتی مراحل میں ہیں۔ حسنین نازشؔ اب تک دنیا کے 18 ممالک کی ہوا خوری کر چکے ہیں اور حال ہی میں اپنے یورپ کے تیسرے سفر پر روانہ ہوئے اور کامیاب دورہ نیدرلینڈز، فرانس اور سپین کے بعد ایک بار پھر امریکا کے سیاحتی دورے پر ہیں۔ آج کل حسنین نازشؔ اپنے سپین کے سفرنامے کو تحریر کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ امریکہ میں گزرے شب وروز کی یاداشتیں بعنوان: ”نازش امریکا میں۔ امریکا ڈائری‘‘ کی صورت میں ”کتاب نامہ‘‘ کے توسط سے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ اس ڈائری کی پہلے قسط نذرِ قارئین ہے.


قسط نمبر: 1

2018ء میں میرا امریکا کا ویزہ لگا۔ میں نے اِسی سال 10 دن امریکا کی ریاستوں نیو یارک، نیو جرسی اور واشنگٹن ڈی سی کی سیاحت کی۔ اس سفر کو کتابی صورت میں بعنوان ”امریکا میرے آگے‘‘ مثال پبلشرز، فیصل آباد نے شائع کیا۔
امریکا میں قیام کے دوران، میرے دو ہم مکتب ساتھی، فیصل غفور اور رضوان مرزا 2018ء میں بھی مجھ سے ملنے کے خواہاں تھے مگر ہماری مصروفیات اور پھر میرا قلیل قیام آڑے آیا اور یوں مجھے ان دونوں دوستوں سے ملے بغیر ہی اپنے وطن لوٹنا پڑا۔
اس وقت سے خصوصی طور پر فیصل غفور مجھے ہر چھ ماہ بعد امریکا مدعو کرتا رہا، خاص کر میں جب 2019ء اور پھر 2022ء میں یورپ کے اسفار پر نکلا تو سوشل میڈیا پر ان سفروں کی تصویری جھلکیاں دیکھ کر فیصل غفور نے اسی وقت متعدد بار امریکا آنے کی دعوت دی مگر میری ذاتی، گھریلو اور دفتری مصروفیات آڑے آتی رہیں اور میں سوائے معذرت کے کچھ نہ کر سکا۔
اس بار جب قسمت میں پھر سے لمبے سفر لکھے گئے اور پاؤں میں پڑا چکر مجھے یورپ کے سفر پر لے گیا تو فیصل کی محبت پھر عود کر آئی۔ اس بار تو اس نے اپنے بڑے بھائی بشیر غفور کو میرے آفس اسلام آباد بھیجا کہ وہ مجھے منائے کہ یورپ کے ساتھ ساتھ امریکا کا بھی سفر کروں۔ بشیر نے بتایا کہ میرے لیے فیصل نے اپنے گھر میں پورا پورشن مخصوص کر لیا ہے۔ باربار کے اصرار اور پھر ایک نئے رشتہ دار سے ملاقات وہ اسباب تھے جس کے سبب مجھے دو ہفتے یورپ گزارنے کے بعد امریکا آنا پڑا۔

28 مئی 2023ء کی دوپہر، جان ایف کینیڈی ائیر پورٹ، نیویارک کے امیگریشن آفیسر نے میرے پاسپورٹ پر 6 ماہ کی انٹری سٹیمپ کی اور ساتھ ہی کہا کہ وہ پاکستان آنا چاہتا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے اسے میزبانی کی دعوت دی۔ شکریہ کے بعد اس نے میرا پاسپورٹ میرے حوالے کیا۔ لاؤنج سےفارغ ہوکرآوٹ ڈور لاونچ سے باہر نکلا تو فیصل غفور سامنے کھڑا تھا۔ برسوں بعد ملے تھے۔ اس کے چہرے پر شادمانی کا ایک رنگ آ رہا تھا تو دوسرا جا رہا تھا۔ بغل گیر ہوئے اور اس کی گاڑی میں سوار ہو کر نیو یارک کے علاقے جیکسن ہائیٹس پہنچے۔ یہ گویا پاکستانی محلہ تھا جہاں انڈین اور بنگالیوں کی بھی کثیر تعداد رہتی ہے۔ یہاں کے مشہور ڈیرہ ریسٹورنٹ میں مٹن کڑاہی، چکن تکہ، توا فش اور چنے کھا کر فیصل کے گھر 95 سپرنگ فیلڈ، مسیاچوسس کی جانب بڑھے۔ یاد رہے کہ فیصل کے ساتھ اس کا دوست شیخ صاحب بھی ہمراہ تھے، ورنہ اتنا سب کچھ ہم دونوں کیسے کھا سکتے تھے؟
میرے امریکہ اور کینیڈا میں مقیم دوست احباب عزیز و اقارب مجھے ملنے کی استدعا کر رہے ہیں۔ جانے مجھے کتنے احباب سے ملنے کے مواقع ملیں؟
جانے کتنی جگہوں پر میرےقدم ثبت ہوں؟ وقت ہی بتائے گا۔