”نازش امریکا میں ۔ امریکا ڈائری‘‘، قسط نمبر: 5 – حسنین نازشؔ

چاکلیٹس لے لیں، مجھے سائیکل خریدنی ہے

امریکا آئے ہوئے مجھے ایک ہفتہ ہونے کو ہے مگر سوائے کھانے پینے، سونے، پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے کے مجھے کوئی اور کام نہیں۔ دو دن بارش تھی، اس لیے گھر سے باہر بھی نہ جا سکا۔ آج بادل چھٹے تو میں اور فیصل گروسری کرنے نکلے۔ ہم وال مارٹ پہنچے۔ (واضح رہے کہ وال مارٹ امریکا میں کیش اینڈ کیری کی ایک بڑی چین ہے۔) گروسری سے فراغت کے بعد گاڑی کی جانب بڑھے تو ایک کم سن امریکی لڑکی ہماری جانب آئی۔ اس کی عمر بمشکل 10 برس تھی۔ گوری چٹی، سنہرے بال شانوں تک آئے ہوئے۔ اس کے ہاتھ میں چاکلیٹس تھیں۔ اس نے ہمارا راستہ روکا اور بولی:
”مجھ سے چاکلیٹ خرید لیں مجھے بائیسکل خریدنی ہے۔‘‘
فیصل نے جھٹ بٹوہ نکال کر 6 ڈالر کی دو چاکلیٹس اس سے خرید لیں۔
وہ بچی نہ صرف خوب صورت تھی بلکہ اس کی وضع قطع چغلی کھا رہی تھی کہ وہ کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ میں حیران ہوا کہ دنیا کے امیر ملکوں کی فہرست میں جگمگاتا نام امریکا کا ہے اور اس کی جوان ہونے والی نسل چاہلڈ لیبر کا شکار ہے۔ یہ کیسا تضاد ہے؟
گزشتہ صدی کے آغاز میں چائلڈ لیبر کے واقعات تقریباً ختم ہو گئے تھے لیکن امریکا میں چائلڈ لیبر پر ہونے والی حالیہ تحقیقات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اس وقت ہزاروں یا شاید اس سے بھی زیادہ بچے اس صورت حال کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا میں اب بھی پانچ لاکھ سے آٹھ لاکھ بچے بطور مزدور، فارموں پر کام کر رہے ہیں۔ تقریباً 100 سال پہلے، امریکی کانوں، تمباکو کے فارموں، اور ٹیکسٹائل کے کارخانوں نے بچوں کو بطور مزدور ملازمت دینا شروع کیا۔ آج تک یہ مسئلہ حل طلب ہی ہے۔ امریکا میں مزدوروں کی جانب سے یونینز بنانے، اجرتوں میں اضافے کے بڑھتے مطالبات، احتجاج، مظاہروں اور ریلوے حکام کی جانب سے پہیہ جام کرنے کی دھمکیوں کے پیش نظر، امریکا کی کچھ ریاستیں مزدور طبقے اور اس کی طاقت کو کم کرنے پر غور کر رہی ہیں. ایک طریقہ یہ ہے کہ 14سے 17سال کے نوجوانوں کو بطور مزدور بھرتی کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ صرف امریکا ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک کو بھی اس مسئلے کا سامنا ہے۔ صرف منیسوٹا ریاست میں کورونا کے دنوں میں 90 ہزار ڈیموگرافرز ملازمتیں چھوڑ کر چلے گئے۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے اس ریاست میں ملازمتیں زیادہ اور ملازمت کرنے والے لوگوں کی کمی ہوگئی۔ دوسرے نمبر پر آئیوا ریاست ہے جہاں دسمبر تک 75 ہزار افراد نے ملازمت چھوڑ دی۔ دونوں ریاستوں میں جو نئی قانون سازی متعارف کرائی جا رہی ہے اس سے نوجوان افراد زیادہ گھنٹوں تک کام کر سکیں گے جب کہ ملازمت پیشہ طبقہ بیماری یا حادثات کی صورت میں کام کا بوجھ بھی محسوس نہیں کریں گے. نوجوان طبقے کو خصوصی طور پر تعمیرات اور گوشت کی پیکنگ کے شعبوں میں کام دیا جا سکتا ہے کیوں کہ دونوں ریاستوں میں یہ شعبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ کوششیں بدستور جاری ہیں اور بڑی کاروباری کمپنیوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے سیاست دان پوری کوشش کر رہے ہیں کہ مزدوروں کی قلت کو دور کرنے کے لیے کم عمر جوانوں کو کام پر لگایا جائے۔ تاہم، اس کا دوسرا برا پہلو یہ بھی ہے کہ ان بچوں کو پرکشش مشاہرہ یا اجرت دینے کی بجائے انہیں کم تنخواہوں پر رکھا جائے گا اور ساتھ ہی کوئی مراعات یا سہولتیں بھی نہیں دی جائیں گی۔ بتایا گیا ہے کہ اس پروجیکٹ کے ذریعے ایسے بچوں کو ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے جن کے والدین نہیں ہیں یا پھر جو شدید معاشی بحران میں پھنسے ہیں۔ ایسی صورتِ حال کے اخلاقی پہلو بھی الگ ہیں۔
میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اتنے میں فیصل نے اس بچی سے پوچھا:
”کیا تمھارے والد تمہیں سائیکل نہیں خرید کر دے سکتے جو تم چاکلیٹس بیچ کر خریدو گی؟‘‘
”اگر میرے والد چاہیں تو مجھے 20، 20 سائیکلیں خرید کر دے سکتے ہیں۔ وہ بہت امیر ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ جب تم اپنے پیسوں سے بائیسکل خریدو گی تو نہ صرف تمہیں پیسے کی اہمیت کا احساس ہو گا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنی کمائی سے خریدی جانے والی بائیسکل سے بھی بے انتہا پیار ہو گا۔ تم سائیکل بھی سنبھال کر رکھو گی۔ اس کا خیال رکھو گی۔ وہ دیکھو میرے والد بھی میرے ساتھ ہیں۔‘‘
اس نے ایک مرسڈیز کی طرف اشارہ کیا جس کا ڈرائیونگ دروازہ کھلا ہوا تھا اور ایک سوٹڈ بوٹڈ جواں سال امریکی سگار کے کش لگا رہا تھا۔ اس کی نظریں بھی اسی لڑکی اور ہم پر تھیں۔
یہ سب دیکھ سن کر میں تو مبہوت ہو کر رہ گیا۔ امریکا میں چائلڈ لیبر کے اعدادوشمار میری نظروں میں مشکوک ہو گئے۔ یہاں تو مستقبل کے ماہرین معاشیات اور بزنس مین پیدا کیے جا رہے تھے۔ احساس ذمہ داری اولین عمر ہی میں سکھائی جا رہی تھی۔ میں نے بھی جیب سے 10 ڈالر کا نوٹ نکال کر بچی کو تھمایا اور دو چاکلیٹس میں نے بھی اس سے خرید لیں۔ لڑکی نے مجھے 4 ڈالر لوٹائے۔
میں نے اس کے ہاتھ سے چاکلیٹ لیں۔ اس کے ساتھ فوٹو بنوانے کی درخواست کی جسے اس نے بڑی شائستگی سے مسترد کردیا، اس لیے صرف چاکلیٹس کی تصاویر پوسٹ کر رہا ہوں۔

”نازش امریکا میں ۔ امریکا ڈائری‘‘، قسط نمبر: 5 – حسنین نازشؔ” ایک تبصرہ

  1. ماشاء اللہ جناب
    کیا خوب صورت طرز تحریر ہے جی خوش ہوگیا
    دعاگو

تبصرے بند ہیں