ڈاکٹر جمیل جالبی کی تصنیف ’’تاریخ ادبِ اُردو‘‘ جلد اوّل (قدیم دور)، آغاز سے 1750ء تک، ایک جائزہ – آمنہ سعید

’’تاریخ ادبِ اُردو‘‘ جناب ڈاکٹر جمیل جالبی کی چار جلدوں پر مشتمل اُردو زبان و ادب کے ارتقاء پر مبنی کتاب ہے۔ یہاں ہم جلد اوّل (قدیم دور) آغاز سے 1750ء تک محیط چھے فصلوں پر مبنی ادبی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔

اُردو زبان کی ابتداء سے متعلق ڈاکٹر جمیل جالبی کے نظریات سیاسی ہیں۔ ان کے بقول اُردو زبان مسلمان فاتحین کی بدولت فارسی کے زِیر اثر رہ کر ترقی کرتی رہی لیکن فارسی کے ہم پلہ نہ ہوسکی۔ بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے اقتدار و حکمرانی کے زمانے میں پہلے سے موجود یہاں کی گری پڑی بازاری زبان آہستہ آہستہ سر اٹھانے لگی اور فارسی، ترکی اور عربی لُغات اس زبان میں مستقل طور پر شامل ہونے لگیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس دور میں ادبی تخلیق کا بازار گرم ہوا۔ اس زبان کے پروان چڑھنے کی وجہ یہاں کی معاشرتی، تہذیبی وسیاسی ضروریات تھیں۔ ان ضروریات کے تحت ایک زبان کو دوسری زبا ن سے ملا کر استعمال کیا گیا اور اس طور یہ زبان ”ہندوستانی‘‘ کہلائی۔
جمیل جالبی نے مسلمانوں کی فتح سندھ و ملتان، دہلی اور گجرات سے لے کر دکن تک کے اُردو کے سیاسی ارتقائی سفر کو بیان کیا۔ جالبی صاحب نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ مسلمان حملہ آوروں کی آمد کے وقت یہاں کے لوگوں کی تہذیب کمزور اور زوال پذیر تھی، یہ فاتحین ہی تھے کہ جن کی آمد سے زبان نے نشو و نما پائی۔ اُردو شعراء کے سامنے فارسی ادب و اصناف کے نمونے چوں کہ موجود تھے، لہٰذا ان شعراء حضرات نے ان نمونوں کے معیار بنا کر من و عن قبول کیا۔ صوفیائے کرام نے اس زبان کو تبلیغِ دین اور معاشرے کے بہتر اخلاق کے لیے استعمال کیا۔ تاہم قوالی، موسیقی، شاعری اور درس و تدریس کے لیے یہی معیاری زبان ٹھہری۔ عام معاملاتِ زندگی ہو یا بار سرکار کے مختلف طبقات کے معاملات، یہی زبان وسیلہ اظہار رہی۔ لہٰذا جالبی صاحب کا زبان کے حوالے سے یہی مؤقف ٹھہرتا ہے کہ مسلمان فاتحین کی آمد اس زبان اُردو کے معرضِ و جود میں آنے کی اہم وجہ ہے۔ ان کی تہذیب، زبان، ان کا رتبہ اور ثقافت اعلیٰ تھی۔ اس کی نسبت موجودہ قوم زوال پذیر، حقیر اور کم درجہ حیثیت کی متحمل تھی، چناں چہ فاتحین کی برصغیر آمد سے ہندوستانی قوم کے تہذیب و ثقافت اور زبان میں ارتقاء آیا۔ پس تاریخ کی اس ضخیم کتاب کا مطالعہ کرنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’تاریخ ادبِ اُردو‘‘ کے مصنف جمیل جالبی صاحب اس زبان اردو کے ماخذ کا تمام تر سہرا مسلمان فاتحین کے سر باندھتے ہیں۔