مضامینِ پَطرس کا مطالعہ – محمد عمران اسحاق

گذشتہ ماہ راولپنڈی کے ایک اولڈ بکس سیلر(عبدالقدوس صاحب) سے بریگیڈیئر محمد صدیق سالک مرحوم کی کچھ تصانیف منگوانے کا موقع ملا. عزیر دوست نے کمال محبت دِکھائی اور اِن کتابوں کے ساتھ ایک سرپرائز گفٹ کے طور پر ”پَطرس کے مضامین‘‘ کے عنوان سے ایک جھوٹی سی کتاب ساتھ بھیج دی۔ یہ چند صفحات پر مشتمل کتاب دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی اور اس میں موجود مضامین کی فہرست پر نظر پڑتے ہی دل میں فوراً اسے پڑھنے کی امنگ پیدا ہوگئی۔ تصنیف سادہ فہمی اور دلچسپیوں کی بدولت چند ہی دنوں میں پڑھ لی گئی۔
اسے پڑھنے کے دوران الفاظ کے طنزو مزاح سے چہرے پر مسکان کی لہریں دوڑیں چلی آتی تھیں. ذہن کو عمدہ اندازِ تحریر نے تازگی عطا کی۔ اگر آپ اکیلے ہیں اور کھل کر ہنسنا چاہتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ شروع کر دیں، اول سے آخر تک ایک ایک لفظ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کا سبب بنے گا۔
اس کتاب کی فہرست میں جو مضامین شامل ہیں، آئیے ان پر قَلَم کَشی کرتے ہیں:

• ہاسٹل میں پڑھنا:
اس مضمون میں، پطرس زمانہ طالب علمی میں شدید حسرت رکھتے ہیں کہ ہاسٹل میں جاکر رہیں اور اپنی زندگی کی ہر خوشی و خواہش کو پورا کریں. لیکن پطرس کو ابتدائی سالوں میں ہاسٹل کے بجائے ایک رشتہ دار کے گھر میں رہنا پڑا، پھر پطرس کا قصے، کہانیاں اور کامیاب لوگوں کی مثالیں سنا کر اپنے ابا جی کے ساتھ ہاسٹل کے فضائل پر تفصیلی گفتگو کرنا اور کسی طرح انہیں ہاسٹل میں رہنے پر راضی کرنے کی جستجو انتہائی دلچسپ الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔

• سویرے جو کل آنکھ میری کھلی:
اس مضمون میں پَطرس بخاری امتحان کے دنوں میں صبح سویرے جاگنے کا ارادہ کرتے ہیں اور خود کو اٹھانے کی ذمہ داری اپنے ایک ہمسائے کے سپرد کرتے ہیں، پھر وہ ہمسایہ کِس انداز و ذمہ داری سے اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے اور پطرس اس کی زمہ داریوں سے کس قدر غفلت برتتے ہیں، پورا مضمون پڑھنے کے قابل ہے۔

• کُتے:
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس مضمون میں، شہر کے آوارہ کتوں کے خوف اور ان کی گلی کوچوں، سڑکوں پر بہتات کی وجہ سے خوف و دہشت اور ساری رات ان کے بھونکنے سے ہونے والی تکالیف کو کمال انداز میں پیش کیا ہے۔ مصنف کا ایک فقرہ انتہائی متاثر کن ہے کہ ”کہا جاتا ہے کہ بھوکنے والا کتا کاٹا نہیں کرتا‘‘، پَطرس کہتےہیں کہ ”کیا اعتبار کب وہ بھوکنا بند کر دے اور کانٹا شروع کر دے؟‘‘

• اردو کی آخری کتاب:
یہ مضمون مختلف موضوعات جن میں ”ماں کی مصبیت‘‘ میں ممتا کی محبت کی جھلک واضح کرتا ہے، دوسرا موضوع ”کھانا خود پک رہا ہے‘‘ میں بیوی کے ہاتھوں ہونے والے گھریلوں کام کاج کو بیان کرتا ہے۔ تیسرا موضوع ”دھوبی آج کپڑے دھورہا ہے‘‘ میں دھوبی کی محنت پر روشنی ڈالتا ہے اور امیروں کی بے اعتنائی بیان کرتا ہے۔

• میں ایک میاں‌ ہوں:
یہ ایک انتہائی دلچسپ اور مزاح سے بھرپور موضوع ہے جس میں پطرس اپنی بیگم کی وہ عادات بیان کرتے ہیں جن کی بدولت پطرس کے دوست ان کی بیوی کو انتہائی بُرے لگتے ہیں اور وہ اپنے میاں کو ان سے ملنے سے باز رکھتی ہیں مگر پھر بھی پطرس بیوی کے میکے جانے پر گھر میں اپنی عیاشیوں کو دوستوں کے ساتھ انجوائے کرنے کے لطف کو انتہائی مزاحیہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔

• مُرید پُور کا پیر:
اس مضمون میں پَطرس بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن کانگرس کے جلسے میں چلے گئے اور اس جلسے کے حالات و واقعات اپنے بھتیجے کو خط لکھ کر بتا دیے. بھیتیجا ان خطوط کو اخبار والوں کو پیش کردیتا ہے، اس طرح پطرس اپنے شہر مرید پور میں ایک اعلیٰ پیر کی صفات حاصل کرگئے جو علم و ادب سے بھرپور اور کامل صفات کے مالک بن گئے. مرید پور کے باسیوں کا پطرس کو بلانا اور جلسے کا اہتمام کرنا، پھر پطرس کا تقریر کے دوران لوگوں کے ہجوم سے گھبرا کر ہاتھ پاؤں پھلانا اور اپنی تقریر کو بھولنا اور لوگوں سے بے عزت ہوکر بے دخل ہونا بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

• انجام بخیر:
اس مضمون میں پطرس کے پاس پڑھ کر جانے والے طالب علموں کا اعلٰی عہدوں پر فائز ہونا اور پھر ان کا اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہو کر انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنے استاد پطرس کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی خدمات پیش کرنا دل چسپ انداز میں بتایا گیا ہے۔

• سنیما کا عشق:
اس موضوع پر پطرس انتہائی دل چسپ اور طنزیہ انداز میں اپنے دوست مرزا کی اُس عادت پر روشنی ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ سنیما گھر میں لیٹ پہنچتے ہیں. درمیان سے فلم دیکھتے ہیں اور شروع کہاں سے ہوئی تھی، کچھ سمجھ نہیں۔ اس موضوع کو پڑھتے ہوئے بھی آپ کے چہرے کی مسکان آپ کا بھرپور ساتھ دیتی ہے۔

• میبل اور میں:
اس مضمون میں پَطرس اپنی کلاس فیلو میبل کی کتاب دوستی کو اس طنز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ کتابوں کے ڈھیر تو پاس رکھتی ہے اور مجھے جتاتی بھی ہے کہ میں نے آپ سے زیادہ کتابیں پڑھی ہیں لیکن میرا کتابیں پڑھے بغیر اعتماد کے ساتھ انہی کتابوں پر تبصرہ کرنا، جو وہ پڑھ چکی ہے، اُسے مرعوب کرتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بھی بس کتابیں اپنے پاس رکھتی ہے، انہیں پڑھتی ہرگز نہیں ہے۔

• مرحوم کی یاد میں:
اس مضمون میں پَطرس نئی نئی آنے والی موٹر کار کی حسرت بیان کرتے ہیں اور اپنے دوست مرزا کی طرف سے ملنے والی سائیکل کی حالتِ زار اور اس کی سواری کے دوران اپنی حالت پر گزرنے والے لمحات کو دلفریب مناظر میں پیش کرتے ہیں.

• لاہور کا جغرافیہ:
لاھور کا جغرافیہ پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح پطرس نے یہاں کے محل وقوع ، حدود اربعہ ، ذرائع رفت ،،قابلِ دید مقامات ، صنعت و حرفت اور یہاں سے پڑھ کر نکلنے والے طلباء کی مختلف اقسام کو انتہائی خوب صورت مضمون میں بیان کیا ہے ۔