سلاست کا شاعر، حسن نثار – طاہر کمال

مشہور معقولہ ہے کہ شعور اور شور میں فرق صرف ’’ع‘‘ کا ہے اور یہ ’’ع‘‘ علم والی ہے۔ شاعر شعور سے ہے اور بغیر شعور کے شاعری ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘
یوں تو حسن نثار کی شخصیت سے کون واقف نہیں. ایک مشہور کالم نگار، تجزیہ کار اور بے باک صحافی ہیں۔ آپ کے منفرد اندازِ بیان اور بے لاگ تبصروں کی بدولت آج بھی ’’چوراہا‘‘ کے عنوان سے چھپنے والے کالم، قارئین بڑے غور سے اور نہایت شوق سے پڑھتے ہیں۔
حسن نثار روایتی کالم نگاروں سے ہٹ کر معروضی حالات پر اپنا منفرد اندازِ فکر و نظر رکھتے ہیں۔ یوٹیوب پر ان کا چینل بھی موجود ہے اور اکثر فیس بک پر ویڈیوز میں مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو بھی ہے جس سے بہت کم لوگ واقفیت رکھتے ہیں کہ وہ ایک صاحبِ اسلوب و صاحبِ کتاب شاعر ہیں۔
اُن کا یہ شعری مجموعہ ’’پچھلے پہر کا چاند‘‘، 1998ء میں ’’شرکت پرنٹنگ پریس، لاہور‘‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہوا تھا. جو کہ حمد، نعت، سلام ، نظم و غزل پر مشتمل ہے۔ کتاب کا انتساب تنویر عباس نقوی کے نام ہے جب کہ کتاب پر مضمون معروف شاعر نذیر قیصر نے لکھا ہے۔
حسن نثار کی مشہورِ زمانہ نعت ’’تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا‘‘ اور زَبانِ زَدِ خاص و عام شعر

مِرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا
میں حر ہوں اور ابھی لشکرِ یزید میں ہوں

بھی اِسی مجموعہ کلام میں شامل ہے۔ 216 صفحات پر پھیلی ہوئی یہ کتاب جہاں غمِ ہجراں اور نشاطِ وصل کے لطیف جذبات و تصورات کا اظہار ہے، وہیں معاشرتی تنزلی کا نوحہ گر بھی. نڈر اور بے باک شخص ہر سطح پر ظلم کے خلاف نبردآزما رہتا ہے۔ اقبال نے فرمایا تھا:

آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

حسن نثار کی غزل کا فنی جائزہ لیا جائے تو یہ سہل ممتنع، سادگی، سلاست، علمِ بدیع اور روانی کی عمدہ مثال ہے۔ وہ روایت کے باغی بھی نہیں اور جدت کے ترازو میں بھی پورے نظر آتے ہیں۔ محترم نذیر قیصر نے حسن نثار کو ملامتی صوفی کہا ہے پر میرا خیال ہے کہ وہ ملامتی صوفی نہیں علامتی صوفی ہیں۔ جو علامت ہے مشربِ صوفیاء کی، جو حق گوئی سے گھبراتا نہیں۔ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتا، قوم سے سوچنے کی قوت کو سلب نہیں کرتا بلکہ اس کی سوچ کے دریچوں کو جہالت کے قفل سے آزاد کرتا ہے۔ حسن نثار لفظوں کو حجاب پہنانے کے عادی نہیں، وہ جو کہنا چاہتے ہیں، کہہ دیتے ہیں. شعر دیکھیے:

بس اتنی بات کہنا چاہتا ہوں
تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں

اور اس شعر میں سلاست کا مزہ لیجیے:

ہم سے چاہے کبھی نہ پیار کرو
نرم لہجہ ہی اختیار کرو

شاعر اپنے عہد کا سوانح نگار ہوتا ہے اور اس کی شاعری اپنے عہد کی سیاسی، علمی و ادبی اور معاشرتی منظرنامے کی تاریخ ہوتی ہے۔ پھر چاہے وہ ایتھنز کا سولن ہو، یونان کا ہومر ہو،عرب کا امرؤالقيس ہو، فارس کا منصور حلاج ہو، میر کے مزامیر ہوں، غالب کے شعری قالب ہوں یا پھر اقبال کی نظمیں، اپنے اپنے عہد کی سچی تصاویر ہیں۔ دبستان دہلی اور بالعموم میر کی شاعری داخلیت کی حامل ہے اور دبستانِ لکھنو کی شاعری میں خارجیت کا عنصر نمایاں ہے. حسن نثار کی شاعری میں داخلی اور خارجی دونوں عناصر شامل ہیں۔ ان کی کتاب میں چھوٹی اور بڑی، دونوں بحور میں کلام دیکھنے کو ملتا ہے. لیکن ایک بات جو کتاب پڑھتے ہوئے میں نے شدت سے محسوس کی، وہ یہ کہ شاعری کو کتاب کی صورت میں جمع کرتے ہوئے اس بات کا لحاظ نہیں برتا گیا کہ کون سا شعر قابلِ اشاعت ہے اور کِسے نظری کر دینا احسن ہے۔ یعنی صاحبِ کتاب کو اگر ایک شعر بھی ملا ہے تو اس نے اس کو ضائع نہیں کیا۔ قارئین کو کتاب میں تین شعروں پہ مشتمل غزل بھی پڑھنے کو مل سکتی ہے۔ ایک دو جگہ پہ مصارع بے وزن بھی دیکھنے کو مِلے ہیں، ممکن ہے کمپوزنگ کی غلطی ہو. مثال کے طور پر شعر دیکھیے:

سفر زیست کا کیا پوچھتے ہو کیسا ہے
میں نے بچپن سے بڑھاپے میں قدم رکھا ہے

مندرجہ بالا شعر بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع بروزن فاعلاتن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فِع٘لُن میں ہے مگر مصرع اولیٰ ابتدا میں گمان ہوتا ہے کہ بے وزن ہورہا ہے۔ کیوں کہ اگر ”سفرِ زیست‘‘ کو اضافت کے ساتھ پڑھا جائے یعنی ”سَفرِ زیست‘‘ تو شعر وزن میں ہوگا، سفرِ زیست کو اگر ”سفر زیست‘‘ بغیر اضافت کے پڑھا جائے تو شعر بے وزن ہوگا۔ لہٰذا یہ کمپوزنگ ہی کی غلطی محسوس ہوتی ہے۔ ایک اور شعر نصیر تُرابی صاحب کی زمین میں دیکھیے:

ایسا نہیں کہ اس کو محبت نہیں رہی
ہاں یہ ہوا کہ پہلی سی فرصت نہیں رہی

اب ”ابنِ رضا‘‘ کا شعر دیکھیے:

مانا کہ اب وہ پہلی سی فرصت نہیں اسے
کیسے یہ مان لوں کہ محبت نہیں اسے

اب معلوم نہیں کس نے کس کا سرقہ کیا ہے، بہرحال یہ بھی ایک معمہ ہے۔ ایک شعر مزید دیکھیے:

ہم نے سچ کو جیسے پہچانا بیاں کرتے رہے
اور وہ کہتے ہیں کہ ہم تو خود سری کرتے رہے

مندرجہ بالا شعر میں ”تقابلِ ردیفین‘‘ کا عیب موجود ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو کتاب کی عمدگی پر منفی اثرات ضرور مرتب کرتے ہیں۔ مگر یہ کتاب اُن کی شخصیت و فن کا بہترین حوالہ ہے۔ انتخاب ملاحظہ فرمائیں:

مِرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا
میں حر ہوں اور ابھی لشکر یزید میں ہوں

٭٭٭

رات کے پچھلے پہر کا چاند ہو
اب تمہیں چپ چاپ ڈھلنا چاہیے

٭٭٭

میرے خدا تو مجھ پہ وہ لمحہ اتار دے
جو میرے اردگرد کی ہر شے سنوار دے

٭٭٭

میں کھنڈر تھا مجھے کچھ دیر تو آباد کیا
کیسے کہہ دوں مجھے اس شخص نے برباد کیا

٭٭٭

عمر اس سوچ میں ساری جائے
زندگی کیسے گزاری جائے

٭٭٭

کسی سے کوئی گلہ کس طرح کریں کہ حسن
ہم ایسے لوگ خود اپنے خلاف ہوتے ہیں

٭٭٭

لشکری کٹوا کے خوش ہوں میں منافق راہبر
اپنے سینے پر میں اب تمغے سجالوں گا کئی

٭٭٭

تیر تھا اور مِرے سینے میں آکر رُک گِیا
دور جانا تھا اُسے مجھ کو کماں بننا پڑا

٭٭٭

آ حسن تو ہی کفن باندھ لے سر پر اپنے
کوئی تو بھولی ہوئی رسم نبھانے نکلے

٭٭٭

چاند ہوں میرے سفر کا انت ہی کوئی نہیں
ایک مسلسل دائرے میں گھومتا رہتا ہوں میں

٭٭٭

کسی کا دل جو بہت ہی دھڑک رہا ہوگا
چراغ بجھنے سے پہلے بھڑک رہا ہوگا

٭٭٭

میزانِ آرزو کے توازن کی خیر ہو
اب اس کو میری کوئی ضرورت نہیں رہی

٭٭٭

پھر اک پہاڑ سا دن منتظر کھڑا ہے مرا
پھر ایک صحرا سی شب میرے انتظار میں ہے
شریک ہوتے ہوئے بھی میرا شریک نہیں
عجیب فاصلہ اس کے طریق کار میں ہے

٭٭٭

مِرے ساتھ ساتھ سفر کرو
مجھے عمر سمجھو بسر کرو