سب بچے سکول سے واپس آ چکے تھے۔ انہوں نے ہاتھ منہ دھو کر، کپڑے تبدیل کیے اورکھانے کا انتظار کرنے سینٹر روم میں بیٹھ گئے۔ اِسی دوران بڑی امی جی بھی وہاں آ گئیں۔ انہوں نے چاروں بچوں سے ان کی آج کی مصروفیت کے بارے میں پوچھا۔ سب بچوں نے اپنی اپنی مصروفیات بتائیں۔ ہانیہ کہے لگی:
امی جی ہماری کلاس ٹیچر نے بتایا ہے کہ اکتوبر میں قدرتی آفات سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اور اس سلسلے میں انہوں نے ہمیں قدرتی آفات پر مضمون لکھ کر لانے کو کہا ہے۔ آپ ہمیں تفصیل سے سمجھائیں کہ قدرتی آفات کیا ہوتی ہیں اور اِن سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
امی جی بولیں: بالکل بیٹی، آپ کی کلاس ٹیچر نے صحیح بتایا، اکتوبر میں قدرتی آفات سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یہ دن 13 اکتوبر کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد قدرتی آفات، ناگہانی سانحات، سیلاب، زلزلے، وبائی امراض پھوٹنے سمیت دیگر ایسے ہی واقعات کے بارے میں عوام کو مختلف عوامل سے آگاہ کرنا ہے تا کہ وہ کسی بھی آفت کی صورت میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے امدادی سرگرمیوں میں مددگار ثابت ہو سکیں جب کہ پاکستان میں قدرتی آفات سے بچاؤ کے حوالے سے خصوصی دن 8 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔
یہ بات سن کر زہرا نے حیرانی سے سوال کیا: امی جان یہ دن دُنیا میں اور پاکستان میں مختلف تاریخوں کو کیوں منایا جاتا ہے؟
امی جان نے جواب دیا: شاباش بیٹی، آپ نے بہت اچھا سوال کیا ہے۔ عالمی سطح پرقدرتی آفات سے بچاؤ کا یہ دن1989ء سے ہر سال 13 اکتوبرکو منایا جاتا ہے۔ 8 اکتوبر 2005ء کو پاکستان میں قیامت خیز زلزلہ آیا تھا جس کے باعث ہزاروں افراد جاں بحق ہوگئے۔ لاکھوں مکان، سکول، کالجز، یونیورسٹیاں اور دیگر عمارات زمین بوس ہو گئیں۔ ملک کے دوسرے حصوں کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر اورصوبہ خیبر پختونخوا میں اس زلزلے سے شدید جانی اور مالی نقصان ہوا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ایک کثیر المنزلہ رہائشی عمارت زمین بوس ہو گئی۔ پیارے بچو! یہ ایک ایسے دُکھ اور غم کی گھڑی تھی جس کو اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ہم پاکستانی بھلا نہیں سکے۔ یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا۔ ہر سال آٹھ اکتوبر کو اِسی زلزلے کے متاثرین کی یاد میں پوری قوم سوگ کے ساتھ یہ دن مناتی ہے اور ان معصوم متاثرین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے متحد ہو کر قدرتی آفات سے نمٹنے کا عزم کرتی ہے۔
ہانیہ جو سکول کے کام کی وجہ سے، کافی دلچسپی سے یہ سب سن رہی تھی، کہنے لگی: امی جان ہمیں پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات کے بارے میں تفصیل سے کچھ بتائیں۔
امی جی بولیں: پیاری بیٹی! اگر ہم ماضی میں نظر دوڑائیں تو نئی صدی کاآغاز ہی پاکستان کے بیشتر علاقوں میں خشک سالی سے ہوا۔ 1997ء میں سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے بہت سے علاقے خشک سالی سے متاثر ہوئے۔ یہ ہماری تاریخ کی بدترین خشک سالی تھی جس سے صرف بلوچستان میں دو کروڑ کے قریب بھیڑ بکریاں ہلاک ہو گئیں، اس کے علاوہ بے شمار قیمتی جڑی بوٹیوں، جنگلی حیات، پھلوں کے باغات اور زرعی پیداوار کو شدید نقصان پہنچا۔ 2006ء میں موسمِ گرما کی بارشوں کے آغاز سے اس طویل خشک سالی کا خاتمہ ہوا۔ اس خشک سالی کے دوران ہی 8 اکتوبر2005ء میں ملکی تاریخ کا تباہ کن زلزلہ آیا جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے۔ ایسا ہی خطرناک زلزلہ قیام پاکستان سے پہلے بھی کوئٹہ میں آیا تھا جس میں ساٹھ ہزار کے قریب قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں تھی۔ 2005ء کے زلزلہ کے کچھ عرصہ بعد ملک میں ڈینگی ملیریا کی وبا پھوٹ پڑی جس کی وجہ سے بھی بہت جانی نقصان ہوا۔ ایک سال کے وقفہ سے 28 اکتوبر 2008ء کو بلوچستان میں زلزلہ آیا اور اس کا متاثرہ علاقہ کوئٹہ سے زیارت تک کا تھا۔ اس زلزلے میں بھی کئی قیمتی جانوں کے علاوہ اربوں روپے کا نقصان ہوگیا۔ 2010ء میں مون سون کی تباہ کن بارشوں کے نتیجہ میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا۔ ایک تجزیہ کے مطابق یہ سیلاب 2004ء کے سونامی اور اکتوبر 2005ء کے زلزلے سے کہیں زیادہ تباہ کن اور ہولناک تھا۔
اس سیلاب سے ملکی معیشت کو بہت دھچکا لگا اورکئی لاکھ مربع کلو میڑ زمینی علاقہ شدید متاثر ہوا۔ ساتھ ہی کم و بیش دو کروڑ افراد بھی اس سیلاب سے متاثر ہوئے۔ اس کے بعد بھی دریائے سندھ میں طغیانی اور مون سون کی بارشوں کے سبب جنوبی پنجاب اور اندرونِ سندھ میں بہت جانی و مالی نقصان ہوا۔ ستمبر 2013ء میں پاکستان کے ساحلی علاقوں میں آنے والے تباہ کن زلزلے نے عام آدمی کی زندگی کو بے پناہ متاثر کیا ہے۔ اس زلزلہ سے جہاں گوادر کے ساحل پر ایک جزیرہ سمندر سے نمودار ہو گیا، وہاں بلوچستان کے مختلف علاقوں سمیت سندھ میں کئی علاقے شدید متاثر ہوئے۔ مواصلات کانظام درہم برہم ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ بے حساب مالی نقصان اور کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کا متاثر ہونا ایک بہت بڑا امتحان تھا لیکن پاکستانی قوم ایک حوصلہ مند اور ہمدرد قوم کے طور پر اُبھری اور تما م مشکلات اور مصیبتوں کو جھیلتی گئی۔ قدرتی آفات کی بدولت پاکستانیوں کے امتحان ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ 2020ء کے شروع میں چین سے ایک وبا کورونا وائرس کے نام سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دنیا کے کم وبیش تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کچھ ہی مدت میں ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک اس وبا کے سامنے بے بس نظر آنے لگے۔ جنوری میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی وبا نے انسانوں کو شدید متاثر کرنا شروع کر دیا۔ اس خطرناک وائرس کے علاج کی تلاش میں دنیا بھر کے سائنسدان کوششیں کرنے لگے اور اس بیماری کی روک تھام کے لیے پہلی بارتمام دنیا کے لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے یوں انسانوں کے باہمی رابطے بھی منقطع ہوگئے۔ اس وبا کی بدولت اس وقت دنیا بھر میں 2 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جب کہ دس لاکھ سے زائدافراد جان کی بازی ہار گئے۔ ہمارا پیارا ملک پاکستان بھی متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد گو کہ دیگر ممالک سے کم ہے پھر بھی متاثرین کی تعداد تین لاکھ سے کچھ زیادہ ہے جب کہ 6 ہزار سے زائد افراد اِس بیماری کے سبب جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس وبا کی بدولت عالمی اور ملکی معیشت کو جونقصان پہنچا ہے اس کا اندازہ تو اس وقت ہوگا جب اس وبا کی روک تھام کے بعد دنیا ایمرجنسی سے نارمل حالات کی طرف لوٹے گی تاہم عالمی مالیاتی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس سے انسانوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ممالک کی معیشتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے جس کا ازالہ شاید جلد ممکن نا ہوسکے اور شاید یہ دنیا بھی پہلے جیسی نہ رہے۔
عمار نے بیزاری سے کہا: امی جان کورونا وائرس کی وجہ سے تو ہماری پڑھائی کا بھی بہت خرج ہوا ہے۔ اس بیماری کے بارے میں ہم بہت کچھ جان چکے ہیں۔ میں نے پچھلے مہینے بچوں کے ایک میگزین میں بھی اس بارے بہت معلومات پڑھی، لیکن یہ خشک سالی کیا ہوتی ہے اور اس کے نقصان کیا ہیں؟
امی جان بولیں: بیٹا بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زمین خشک ہو جاتی ہے اور اسے زرعی پیداوار کے لیے پانی نہیں ملتا جس کے باعث متاثرہ علاقے میں غذائی قلت پیدا ہو جاتی ہے، اسے قحط بھی کہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں بڑے پیمانے پرجانداروں کی اموات کا خدشہ ہوتا ہے۔
حسن جو کافی دیر سے یہ سب باتیں سن رہا تھا، بولا: امی جان ہانیہ آپی کو تفصیل بتاتے ہوئے آپ نے سیلابوں کا ذکر کیاتھا، آخر یہ سیلاب کیوں آتے ہیں؟
امی جی بولیں: بیٹا جب بارشیں بہت زیادہ ہوں یا بہت بڑے بڑے برفانی تودے زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے پگھلنے لگیں تو دریاوں میں پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور یہ کناروں سے نکل کر کھیتوں اور آبادی میں پھیل جاتا ہے جو کہ سیلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شہر کراچی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید پانی کی زد میں رہتا ہے لیکن ایسے خدشات دنیا کی دیگر بندرگاہوں کے کنارے قائم شہروں کے بارے میں بھی کیے جاتے ہیں کیوں کہ قدرتی آفات کسی ملکی سرحد کی پابند نہیں ہوا کرتیں۔ اس لیے تمام انسانوں کو ایسی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقائی سیاست سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا چاہیے۔
اگر ہم بین الاقوامی سطح پر دیکھیں تو فالتو پانی کو ڈیموں میں محفوظ کرنے کے حوالے سے چین کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں۔ چین میں بائیس ہزار سے زائد ڈیم موجود ہیں اور بے شمار زیرِتعمیر ہیں۔ اسی طرح زلزلے کے سلسلہ میں جاپان کے اقدامات بھی بہت معقول ہیں۔ چھ ہزار سے زائد مختلف جزیروں پر مشتمل سرزمینِ جاپان زمانہ قدیم سے زلزلوں کا سامنا کرتی آرہی ہے۔ آج جاپان دنیا بھر میں زلزلہ پروف عمارات کی تعمیر میں مستند مانا جاتا ہے۔ جاپانی ماہرین نہ صرف اپنے ملک کی عمارات کو زلزلے سے محفوظ رکھنے کے قابل ہوچکے ہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی تکنیکی معاونت فراہم کررہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ قدرتی آفات غریب اور امیر کے مابین فرق کیے بغیر آتی ہیں لیکن طوفانوں، سیلابوں اور زلزلوں سے سب سے زیادہ متاثر غریب ممالک کے عوام ہی ہوتے ہیں۔ ہمارا پیارا ملک پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے۔ موسمیاتی تبدیلی قدرتی آفات کو بڑھا دیتی ہے اور سیلاب، تیز بارشیں، برفانی اور سمندری طوفان اور خشک سالی پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی معیشت پر بدترین اثرات مرتب کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے نتیجے میں وہی لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو پہلے ہی غربت کے ہاتھوں بدحال ہوتے ہیں۔ جیسے زلزلہ کے باعث متعدد علاقوں میں لاکھوں گھر صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں، متعدد سکول کالجز، یونیورسٹی کے اساتذہ، طالب علم اور عام شہری منوں مٹی تلے دب جاتے ہیں ۔ہمارے ہاں بھی زلزلے نے مالی و جانی نقصانات کے علاوہ زندہ بچ جانے والے متاثرین اور پوری قوم پر شدید نوعیت کے نفسیاتی اثرات بھی مرتب کیے۔ انسان زمانہ قدیم سے قدرتی آفات کا سامنا کرتا آرہا ہے اور آج کے دورِ جدید میں بھی انسان تمام تر ترقی کے باوجود قدرت کی بھیجی ہوئی آفات کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔
اب کی بارعمار بولا: امی جان ہم قدرتی آفات کی صورت میں زیادہ نقصان سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
امی جی نے پیار سے عمار کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولیں: بیٹا! قدرتی آفات کی زد میں واقع علاقوں میں آفات سے نمٹنے کو موثر تیاری ہی جانی و مالی نقصانات سے بچنے کا واحد ذریعہ ہے ۔خاص طور پر ملک کے پہاڑی علاقے اور میدانی علاقے بھی، ان آفات کی زد میں ہیں جہاں بڑے پیمانے پر ان آفات کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتِ حال کا بروقت اور موثر جواب دیا جا سکے۔ خطرات کی زد میں رہنے والے لوگوں کو قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایسی کسی بھی صورتِ حال میں حفاظتی تدابیر اختیار کر کے اپنے جان و مال کو محفوظ بنا سکیں۔ ناگہانی آفات سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں سب سے پہلے مدد کے لیے پہنچنے والے رضاکار باخبر اور تربیت یافتہ ہوں تاکہ وہ لوگوں کی جان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ علاقہ کی دیگر آبادی کو بھی حفاظتی تدابیر کی تربیت دے سکیں۔ تعلیمی اداروں میں حادثات اور ناگہانی آفات سے بچنے کے لیے تربیتی کورسز متعارف کرانے جانے چاہئیں کیوں کہ ان کورسز کے ذریعے ہی آفات کے حوالے سے شعور و آگاہی اُجاگر کرنے کی وجہ سے مختلف حادثات سے بچنے یا نقصانات کو کم کرنے کے حوالے سے عملی حفاظتی اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں ۔
اس وقت دنیا بھر میں زلزلوں، سیلاب، وباوں ، خشک سالی، سونامی اور آتش فشاں پھٹنے سے لاکھوں قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں لیکن مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے کسی بھی بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو قدرتی آفات نے پاکستانی قوم پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ قدرتی آفات میں زرعی پیداوار اور مویشیوں کی افزائشِ نسل کے اعتبار سے سب سے خطرناک قدرتی آفت خشک سالی کو قراردیا جاتا ہے مگر ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے تمام انسانوں کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ کسی بھی ناگہانی آفت کے دوران وہاں کی ضلعی انتظامیہ، پاک فوج، ہلال احمر سوسائٹی اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے متاثرین کے لیے نہایت کامیاب ریسکیو اور ریلیف آپریشن کیا جاتا ہے۔ مواصلاتی نظام درہم برہم ہونے کے باعث متاثرہ علاقے میں ریسکیو آپریشن ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود متاثرہ لوگوں کو فوری طور پر ریلیف مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کی مشکلات میں کمی لائی جاتی ہے۔ پاکستان کے یہ ادارے مختلف آفات کی زد میں آئے علاقوں کے عوام کی جان و مال کو محفوظ بنانے کے لیے ہر وقت اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہانیہ نے امی جی سے سوال کیا: امی جی باقی سب اداروں کا تو ہمیں پتا ہے لیکن یہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کون سا ادارہ ہے؟
امی جان بولیں: بیٹی 2007ء میں پاکستان میںنیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا۔اسی طرح صوبائی سطح پر پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز قائم کی گئیں۔ یہ ادارہ قدرتی اور انسانی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک فعال ادارہ ہے جو آفات سے نمٹنے، آفات کے خطرات میں کمی لانے اور تیاری سے متعلق منصوبہ سازی کرتا ہے تا کہ مصیبت کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ یہ حقیقت ہے کہ آفات کو نہیں روکا جا سکتا لیکن بہترین حکمتِ علمی اور منصوبی سازی سے آفات کے خطرات کو بہت حد تک کم تو کیا جا سکتا ہے نا۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اب تک نہ صرف قدرتی آفات بلکہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن سے متاثرہ خاندانوں کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ ان خاندانوں کی بحالی کا بیڑا بھی اٹھایا ہوا ہے۔ یہ ادارہ پاکستانی عوام کی خدمت میں مصروفِ عمل ہے اور اپنی منصوبہ بندی کے تحت اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام تر امدادی کارروائیوں میں عورتوں، بچوں، بزرگوں اور معذور افراد کی ضروریات کا خاص خیال رکھا جائے۔ اس ادارے کی یہ بھی ترجیح ہے کہ نہ صرف آفات کے خطرات کو کم کیا جائے بلکہ پیشگی اقدامات کے طور پر آفات کے وقوع پذیر ہونے سے قبل کام کرنے کی قوت میں اضافہ کیا جائے تا کہ نقصان کم سے کم ہو سکے۔
زہرا کچھ سوچتے ہوئے امی جان سے مخاطب ہوئی: امی جان اگر کسی علاقہ میں کوئی آفت آ جائے تو ہمارے فرائض کیا ہونے چاہئیں؟
امی جان: پیاری بیٹی ،پہلے تو ہمیں کسی قدرتی آفت سے متعلق مکمل آگاہی ہونی چاہیے پھر اس سے متعلقہ ماہرین کی جانب سے بتائی گئی مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں۔ ساتھ ہی ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں۔ یہ نہ صرف ہماری قومی بلکہ دینی ذمہ داری ہے جس کا بہت اجر ہے۔ کسی بھی تباہی کے بعد لاکھوں افراد ہماری مدد اور توجہ کے مستحق ہوتے ہیں ،اس لیے ہر شخص کواپنے طور پر اس حوالہ سے مدد دینے اور ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے۔ مزید ہم قدرتی آفات کے بارے میں آگاہی مہم شروع کر سکتے ہیں، کیوں کہ آگاہی نمائشیں اور پروگرامز لوگوں میں شعور کو بڑھانے اور انہیں معلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کرنے اور نقصانات کے امکان کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کے بارے میں لوگوں کی تربیت بہت ضروری ہے اور ایسا ان پروگراموں سے ہی ممکن ہے۔
امید ہے بچوآپ سب قدرتی آفات اور ان سے بچاؤ کے حوالے سے بہت کچھ جان چکے ہوں گے؟
سب بچوں نے یک زبان ہو کر کہا: جی ہاں امی جان۔
اس کے بعد تمام بچوں نے امی جان کا شکریہ ادا کیا۔ ہانیہ نے سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کیا کیوں کہ اس کا مضمون مکمل ہو چکا تھا۔
”تانبے کی زمین“، شفیق اختر حر کے منفرد کالموں کا دوسرا مجموعہ – محمد اکبر خان اکبر
کتاب چھپوانے کا سفر، ایک دلچسپ رُوداد – عاطف ملک
”سمندر گنگناتا ہے‘‘، ادبِ اطفال میں ایک منفرد اضافہ – محمد اکبر خان اکبر
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر