ریٹائرڈ بیوروکریٹ و معروف کاروباری شخصیت، محمد بوٹا انجم کی کتاب ’’میاں چنوں سے ملائیشیا‘‘ – محمد عمران اسحاق

سوشل میڈیا کی بدولت مجھے بہت سے ادب شناس دوست ملے جن کی بدولت میں نے کتب بینی کو بطور مشغلہ چنا. میں بھرپور کوشش کرتا ہوں کہ اس مشغلے کی بدولت اپنے علم و ادب اور فہم میں اضافہ کرتا رہوں۔ اسی سوشل میڈیا کی وساطت سے میرا تعلق ایک ایسی شخصیت سے قائم ہوا جو میرے شہر تلمبہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر، 130 چَک میاں چنوں میں پیدا ہوئے اور اپنی انتھک محنت کی بدولت پاکستان کی بیوروکریسی سے گزر کر آج کل ملائیشیا میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ایک کامیاب کاروباری شخصیت کے طور پر آباد ہیں۔
میری خوش قسمتی ہے کہ کتاب ’’میاں چنوں سے ملائیشیا‘‘ میرے ہاتھوں میں آئی اور مجھے پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ کتاب ہماری تحصیل میاں چنوں کے گاؤں 130 چَک سے تعلق رکھنے والے ایک نامور بیوروکریٹ، کالم نگار اور نثرنگاری میں مہارت رکھنے والے محمد بوٹا انجم صاحب کی سوانح حیات ہے. اس کتاب کے اوراق میں ان کی 73 سالہ کامیاب زندگی کی عظیم داستان رقم ہے جو ہر پڑھنے والے کی زندگی کو بدلنے کے لیے ایک بہترین نسخے کی حیثیت رکھتی ہے. آپ نے اپنی انتھک کوشش، محنت اور لگن کی بدولت ملک میں ہونے والے مقابلے کے امتحان (سی ایس ایس) کو نا صرف پاس کیا بلکہ پورے پاکستان میں اٹھارویں پوزیشن حاصل کی اور ملکِ پاکستان کے سب سے اہم ادارے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں اپنی خدمات پوری محنت، لگن، شرافت اور ایمان داری سے سر انجام دی۔
مُصنف نے اپنی زندگی کے اہم ترین پہلوؤں کو اس کتاب کے 478 صفحات میں اتنے سادہ، خوب صورت، دل چسپ اور بہترین الفاظ میں قارئین کے سامنے پیش کیا ہے کہ پڑھنے والا لاکھ کوششوں کے باوجود ان صفحات سے نظر نہیں ہٹا سکتا اور ہر ممکن حد تک اسے چند دنوں میں پڑھ جانے کی ٹھان لیتا ہےاور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ ایک سوانح حیات، آپ بیتی ہے، ایک ایسے شخص کی جو پیدا تو ایک مفلوک الحال گھرانے میں ہوتا ہے مگر اپنی ہمت، لگن اور محنت کی بدولت اپنی قسمت خود بناتا ہے، پھر اللّٰہ کی طرف سے اِس پر رحمت اس طرح اترتی ہے کہ دولت ہاتھ باندھے سامنے کھڑی نظر آتی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا ہے کہ میں نے اس کتاب کو صرف چار دنوں میں پڑھ لیا ہے اور یہ واحد کتاب ہے جِسے میں نے اتنے کم دنوں میں پڑھا ہے. یہ بلاشبہ ایک خوب صورت تصنیف ہے جو آج کے نوجوانوں کو کچھ کر گزرنے کے لیے ابھارتی ہے اور ہر حالت میں اللّٰہ پر توکل کرتے ہوئے راستے میں آنے والی تکلیفوں، مشکلوں اور دشواریوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کا سبق دیتی ہے۔
یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جن کے سر سے والد کا سایہ شفقت اٹھ گیا تو اپنوں نے ایسے نظریں پھیری جیسے جانتے ہی نہیں مگر اس درد ناک لمحے میں نوجوان نے ہمت نا ہاری اور روزگار کی تلاش میں لاہور جیسے بڑے شہر میں جاکر در بدر کی ٹھوکریں کھائیں، فلمی اداکار سے مل کر نوکری کی التجاء کرنے میں عار محسوس نہ کی اور نوبت یہاں تک آگئی کہ گھر واپسی کے لیے کرایہ بھی ادھار مانگ کر ادا کیا لیکن مسلسل جدوجہد اور مقصد کے حصول میں آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرکے آگے بڑھتے ہوئے ماں کی دعاؤں کی بدولت اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ بھرنے کے لیے گھروں میں جاکر بچوں کو پڑھایا، دوسرے شہروں میں محنت، مزدوری کی، بسوں پر کنڈکٹری کی، لاہور میں پتھروں کی رگڑائی کی، پودوں کی نرسری میں سیلز مینی کا کام حتیٰ کہ اپنے آپ کو ہر طرح سے پیٹ اور تعلیم کی ضروریات پورا کرنے کے لیے پیش کر دیا. مصنف سید صادق حسین شاہ کے اس شعر کی عملی تصویر ثابت ہوتے ہیں:

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

ایسا پختہ ازم رکھنے والے جوشیلے نوجوان کی محنت، مشقت اور حوصلے کو دیکھ کر قدرت جوش میں آتی ہے اور کہتی ہے کہ محمد بوٹا تیرے مشکلات کے دن ختم ہوئے۔ حکومت کے شعبہ تعلیم میں لائبریرین مقرر ہوئے اور اپنے خوابوں کی تعبیر میں دن رات ایک کرتے ہوئے اس نوجوان نے کچھ عرصے بعد پاکستان میں ہونے والے مقابلے کا امتحان یعنی سی ایس ایس نہ صرف پاس کیا بلکہ ملک بھر میں اٹھارویں پوزیشن لے اڑے. یہاں حکمران طبقے کے تعصب کا شکار بنتے ہیں، غریب طبقے اور لوئر کلاس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انٹرویو میں صرف پاسنگ مارکس ملتے ہیں مگر پھرحوصلہ نہیں ہارتے، تکلیف تو اس وقت ہوتی ہے جب ٹریننگ کے بعد ہر طرح سے میرٹ پر اترنے کے باوجود پسندیدہ محکمے پولیس میں پوسٹنگ نہیں ہوتی بلکہ خلافِ توقع انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں پوسٹنگ کردی جاتی ہے۔ کام کے دھنی اور پیدائشی محنتی، محمد بوٹا انجم صاحب نے اس ذمہ داری کو قبول کیا اور احسن طریقے سے نبھایا. وہ جس بھی شہر میں گئے، چاہے وہ روشنیوں کا شہر کراچی ہو، کالجوں کا شہر لاہور ہو یا پھر شہرِ اقتدار، اسلام آباد ہو، اپنے آپ کو منوایا. اتنے بڑے عہدے پر بیٹھ کر اپنی اوقات کو یاد رکھا اور طاقتوروں کو ان کی اوقات میں رکھنے کا گُر سیکھا اور انہیں ان کی اوقات میں رکھا بھی. یاروں کے یار اور غریب عوام کا درد رکھنے والے محمد بوٹا انجم محکمے میں موجود گٹھیا افسر کی انتقامی کاروائی کا نشانہ بن گئے اور ہائی گریڈ میں پروموشن سے محروم کردیے گئے۔ جونیئرز کو سینیر بنا دیا گیا۔ محکمے کی ناانصافی سے دل برداشتہ ہو کر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور اس طرح ایک قابل افسر اپنی خدمات سے سبکدوش ہو گیا۔
مصنف نے اس کتاب میں اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور حالات و واقعات کو اتنے زبردست انداز میں پیش کیا ہے کہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے غربت میں بڑا ہونے والا، محنت کی بدولت عزت کمانے والا ایک بیوروکریٹ، نثر نگار، سفر نامہ نگار، کالم نویس اور کاروباری شخصیت، قاری کے سامنے بیٹھے اپنی خود نوشت سنا رہا ہے. مصنف اپنے سفرِ مکہ و مدینہ منورہ کی روداد ایسے عقیدت بھرے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والا الفاظ کی لہروں پر سفر کرتا ہوا خود کو ان جگہوں پر محسوس کرتا ہے. محمد بوٹا انجم نے اپنے دبئی کے سفر اور ملائیشیا کی سیرو تفریح کی روداد کو اتنے دل چسپ انداز میں پیش کیا ہے کہ جی چاہتا ہے ابھی ان جگہوں پر پہنچ جائیں اور مصنف کے ساتھ ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت اور خوب صورتی سے لطف اندوز ہوں۔
مصنف محکمے سے ریٹائر ہوئے تو نثرنگاری میں اپنا لوہا منوایا اور روزنامہ اخبار ”وقت‘‘ میں گیارہ سال تک مسلسل کالم لکھتے رہے. ان کالموں کے مجموعہ پر مشتمل ایک کتاب ”بزمِ انجم‘‘ بھی شائع ہوئی، جس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جی سی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے اس پر تحقیقی مقالہ لکھ کرگولڈ میڈل حاصل کیا۔
محمد بوٹا انجم صاحب نے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ملائیشیا کو اپنا مستقل مسکن بنانے کا ارادہ کیا تو وہاں پر کپڑے کا کاروبار شروع کیا. آغاز کی مشکلات پر قابو پاکر اب آپ ماشاءاللہ بڑی کاروباری شخصیات میں شمار ہوتے ہیں اور وہاں پر رہ کر اپنے وطن کی مٹی سے محبت کرتے اور اپنے پیاروں کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں. غریبوں کا احساس کرتے ہیں اور ان کے لیے ہر وقت حاضر رہتے ہیں۔ اللّٰہ پاک محمد بوٹا انجم کو صحت و تندرستی والی زندگی عطا فرمائے، آمین۔

3 تبصرے “ریٹائرڈ بیوروکریٹ و معروف کاروباری شخصیت، محمد بوٹا انجم کی کتاب ’’میاں چنوں سے ملائیشیا‘‘ – محمد عمران اسحاق

  1. ماشاءاللہ محمد عمران اسحاق صاحب آپ نے نہایت جاندار تبصرہ لکھا پڑھ کر خوشی ہوئی۔ یقیناً آپ کی کتاب دوستی کا ثبوت ہے کہ پہلے کتاب پڑھنا پھر اس پر اپنی رائے دینا بھی ادب میں اپنا الگ مقام رکھتا ہے

  2. حوصلہ افزائی کرنے کا بہت شکریہ سر سلامت رہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں