زیرِ تبصرہ سفرنامہ ’’نیشا پور سے کوالالمپور‘‘ کے نام سے معنون ہے. یہ سفرنامہ مکتبہ یوسفیہ لاہور نے دسمبر 2015ء میں چھاپا تھا. سفرنامہ تین ممالک یعنی تھائی لینڈ، ملائشیا اور ایران کے اسفار پر مشتمل ہے. سفرنامہ صرف ایک سو چار صفحات پر مشتمل ہوتے ہوئے اپنے اندر تمام فنی خصوصیات رکھتا ہے. اس کے لکھنے والے اردو ادب کے استاد، نقاد، محقق اور ادیب محمد اکبر خان ہیں. سفرنامہ ایسی غیر افسانوی صنف نثر ہے جس کو ناقدین نے ام الاصناف کہا ہے کیوں کہ اس میں تمام اصناف ادب کا عکس نظر آتا ہے. زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جو سفرنامے کی پہنچ سے باہر ہو. نت نئے موضوعات کا مرقع ہونے کی وجہ سے یہ ہمشیہ قارئین کی توجہ کا مرکز رہا ہے.
محمد اکبر خان جس ملک میں بھی گھومے، اس کو قارئین کی نظروں میں پوری چابکدستی سے گھمایا ہے. ان کے اندازِ بیاں نے قاری میں ایک تو سفر کرنے کی جستجو پیدا کی ہے اور دوسرا اس کو ملک کے چھپے ہوئے رازوں اور جگہوں سے مکمل طور پر واقف کرایا ہے. سفرنامہ نگار ایرانی ثقافت کے متعلق لکھتے ہیں. ”بالا شہر، ایران کا پوش علاقہ ہے اور باقی شہر سے قدرے بلندی پر واقع ہے. ٹیکسی نے ہمیں ایک پارک کے دروازے پر اتار دیا. پارک خوب صورت اور سر سبز تھا مگر دوپہر کے باعث ویران ویران سا تھا. جب سرو کے لمبے درختوں کے سائے طویل ہونے لگے تو لوگوں کی آمدورفت بڑھتی گئی. پارک میں گھومتے ہوئے احساس ہوا کہ اس باغ میں زیادہ تر عاشق مزاج نوجوان جوڑے ہی آیا کرتے ہیں. ہم نے اکثر بینچوں پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جوڑوں کی شکل میں بیٹھا پایا. کہیں ایک نوجوان اپنی محبوبہ کی گود میں سر رکھے لیٹا ہے تو کہیں ایک دل ربا لیلٰی اپنے مجنوں کی کمر میں ہاتھ ڈالے بیٹھی ہے. پورے پارک میں ہم دونوں غالباً واحد لوگ تھے جو صنف نازک کے ہمراہ نہیں تھے.‘‘ (صفحہ 36)
سیاح ایک طرف اپنی ذہنی تسکین کے لیے سفر کرتا ہے تو دوسری طرف وہ چھپے ہوئے رازوں کی بازیابی کا سبب بھی بنتا ہے. عام حالات میں جو باتیں عوام سے چھپائی جاتی ہیں، سیاح اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ان کی نقاب کشائی کرتا ہے. گویا سیاح ایک وقت میں ایک محقق کے روپ میں بھی نظر آتا ہے. یہی بات سیاح کو جانب دارانہ رویے سے دور رکھتی ہے اور سفرنامے کو سچی اور سُچی دستاویز بنا دیتی ہے. محمد اکبر خان عالمی منظر نامے پر بھی بڑی گہری نظر رکھتے ہیں اور دنیا میں موجود افراط و تفریط، فتنہ و فساد سے بیزار نظر آتے ہیں. موصوف تمام تر مسائل کا حل باہمی یگانگت میں پنہاں سمجھتے ہیں. اپنی اس کڑھن کا اظہار وہ ایران کے سفر کے اختتام پر درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں:
”میرے خیال میں ایران کو اس تعصب اور تنگ نظری سے باہر نکل آنا چاہیے اور اپنے وسائل بجائے (اپنے مسلک کے) عقائد کے فروغ کے لوگوں کی بہبود پر خرچ کرنے چاہییں تاکہ اتحادِ امت کا خواب حقیقت کی تعبیر پا لے.‘‘ (صفحہ نمبر 57)
منظر نگاری کسی بھی سفرنامے کی جان ہوتی ہے. منظر نگاری کے بل بوتے پر ہی سیاح، قاری کو اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے اور اس کا دل بہلاتا ہے. اس کو نئے نئے نئے گوشوں سے ہم کنار کرتا ہے. منظر نگاری سے سیاح مردہ اشیاء میں روح پھونک دیتا ہے، قارئین میں دلچسپی کے عناصر کو تیز تر کر دیتا ہے. سو محمد اکبر خان کا سفرنامہ اپنے اندر عمدہ منظر نگاری کے حوالے سے بھی بے پناہ کشش رکھتا ہے. سفرنامہ نگار کراچی سے بنکاک کے ہوائی اڈے کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”رن وے کا گیلا پن کچھ دیر پہلے ہونے والی بارش کا ثبوت دے رہا تھا. ہماری پرواز کراچی سے مسقط تا بنکاک پہنچی تھی. چند ایک عرب خاندان بھی دکھائی دے رہے تھے. ہوائی اڈہ خاصی حد تک شاندار اور صفائی ستھرائی کے اعلٰی معیار کا حامل تھا. باہر نکلے تو ہمیں لے جانے کے لیے بسیں تیار تھیں. بسوں کے قریب تھائی لڑکیاں اپنے قومی لباس میں ملبوس ہاتھوں میں ہار اٹھائے کھڑی تھیں. پہلے تو میں یہ سمجھا کہ یہ سب ہمارے استقبال کو آئی ہیں مگر ان کے ساتھ ایک فوٹو گرافر کو دیکھ کر حیرت ہونے لگی. وہ بس میں سوار ہونے سے پہلے ہمیں ہار پہناتیں اور روایتی انداز میں ہاتھ جوڑ کر مسافر کے ہمراہ تصاویر اترواتیں.‘‘ (صفحہ 69-70)
سفر کے دوران محمد اکبر خان اپنے علاقے کا دوسرے علاقے کے ساتھ تقابل کرتے بھی نظر آتے ہیں. میرے خیال میں تقابلی رویہ انسان کی جبلت میں شامل ہے. وہ اپنے آپ کا، اپنے خاندان اور اپنے ماحول و معاشرت، غرض ہر چیز کا دوسری اشیاء سے تقابل ہر صورت کرتا ہے. اگر وہ اپنے ماحول و معاشرے کو یا دیگر اشیاء کو دوسروں سے اچھا محسوس کرے تو خوش ہوتا ہے جب کہ اس کے برعکس وہ مخزون و غمگین ہوتے ہوئے سرد آہیں بھرتا ہوا نظر آتا ہے. تقابل کے بعض پہلو لائقِ تحسین ہیں اور بعض پہلو قابلِ نفرین. لائق تحسین اس حوالے سے کہ اس سے انسان اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی شعوری کوشش کرکے ملکوں معاشرے کے لیے باعث سکون و اطمینان بنتا ہے. اس کی زندگی کا رخ بہتری کی طرف مڑ جاتا ہے. لائق نفرین اس حوالے سے ہے کہ اس میں تقابل سے مایوسی اور حسد کے جذبات پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جس سے معاشرے میں تادیر مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں. بہرحال ہر عمل اور ہر چیز کے اگر مثبت پہلووں کو اپنا لیا جائے تو بہتر صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے. سفرنامہ نگار تھائی لینڈ کے کورل آئی لینڈ جزیرے کا اپنے ملکوں سے تقابل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یہاں تفریح کے لیے واٹر سیلینگ، پیرا سیلنگ واٹر بائیک اور دوسری کئی سہولیات موجود ہیں. ہمارے ملک کا ساحل بھی کم و بیش آٹھ سو کلومیٹر طویل ہے اور چند ایک جزیرے بھی موجود ہیں. وہاں آخر اس طرح کی سہولیات کیوں نہیں؟‘‘ (صفحہ نمبر 76)
درجِ بالا عبارت مصنف کے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہونے کا پتا دیتی ہے. وہ ہرحال میں اپنے ملک و قوم دوسری اقوام سے ترقی و راہبری میں آگے نکلتا دیکھنا چاہتے ہیں. وہ اپنے ملک کے بے شمار وسائل کے ضیاع پر خاصا متوحش اور بے قرار نظر آتے ہیں. دوسرے ملکوں کی سیاحت ان کے جذبات کو اور زیادہ برانگیختہ کر دیتی ہے. اس صورتِ حال میں سفرنامہ خارج سے داخل کی جانب سفر کرتا ہوا نظر آتا ہے.
سفرنامہ نگار نے اپنے سفرنامے میں موقع محل کے اعتبار سے اشعار کا استعمال کرکے اس میں مزید دلکشی اور جان پیدا کی ہے. اشعار کا استعمال قاری کے ذوق کو مہمیز لگاتا ہے، اس میں جوش و جذبہ پیدا کرتا ہے، اس کی طبعیت کو بشاشت سے ہم کنار کرتا ہے. یہ ایک حقیقت ہے کہ شاعری نے ہمشیہ عوام کی تقدیر کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے. مردہ ذہنوں کو شاداب کیا ہے، الجھے ہوؤں کو سلجھایا ہے، رکے ہوؤں کو چلایا ہے. نثر میں لکھے ہوئے سینکڑوں صفحات ایک شعر سے حاصل ہونے والے ثمرات و اثرات سے عاری نظر آتے ہیں. سفرنامہ پڑھتے ہوئے بہت سے فارسی و اردو اشعار نے میرے دل پر بہت خوش کن اثرات چھوڑے لیکن صرف ایک شعر پڑھنے والوں کی نذر کیا جاتا ہے جو کہ سفرنامہ نگار نے ایران کے شہر مشہد کی تاریخی ہستیوں کی مناسبت سے سفرنامے میں درج کیا ہے:
عطارؔ ہو، رومیؔ ہو، رازیؔ ہو، غزالیؔ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی
درج بالا شعر پڑھنے والے کے دل و دماغ میں تاریخی شخصیات کے تعارف کے ساتھ ساتھ اس میں مزید محنت و ہمت کا شوق بھی پیدا کرتا ہے. اس کو اپنے مقصد کے حصول تک بے چین رہنے پر بھی اکساتا ہے. سفرنامے کے متعلق مختصر تبصرے کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ سفرنامہ دورِ حاضر کے اچھے سفرناموں میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے. اس سفرنامے سے ہر کس و ناقص اپنی ذہنی صلاحیت کے مطابق بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے.