پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر نہایت قابل استاد جن سے میں نے ایم فل کے تعلیمی سفر میں ذخیرہ معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے تجربات سے خوب استفادہ کیا۔ آپ اپنے تجربات اور قابلیت کی بدولت سکالرز کو نہ صرف ماضی کی ادبی صورتِ حال سے باور کراتے بلکہ ادبی حالاتِ حاضرہ کے متعلق بھی مفید معلومات سے آگاہ کرتے رہے۔ یہی نہیں بلکہ اُردو ادب کے مستقبل سے لاحق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی کمزور جڑوں کی جانب اپنے سکالرز کی توجہ بھی مبذول کراتے رہے۔ ڈاکٹر خالد اقبال کی طبیعت میں مرعوبیت ہرگز نہیں. آپ جو بھی بات کرتے ہیں، سچی اور کھری کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سکالرز کی کاوشوں کو سہراتے ہوئے ان کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے ہدایات بھی دیتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں آپ کے قلمی سفر کی جوکہ لگ بھگ پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔ اس قلمی سفر کے دوران آپ کی تیس سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر آپ کوحکومتِ پاکستان نے اعلیٰ ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز جیسے سول اعزاز سے نوازا۔ آپ کی پیدائش بھیرہ، ضلح سرگودھا میں ہوئی لیکن بچپن کے ایام سرگودھا میں گزرے اور وہاں ہی سے سی کام اور بی کام کی سند حاصل کی۔ آپ کی ذہانت کی بدولت آپ کو بی کام آنرز کے لیے انٹرونگ ایکسچینج پروگرام کے تحت وظیفہ ملا۔ چنانچہ آپ کو تعلیمی غرض سے ڈھاکہ کا سفر کرنا پڑا لیکن افسوسناک حالات کے پیشِ نظر، 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو پاکستان واپس آنا پڑا۔ سقوطِ ڈھاکہ کا دکھ اور اس دور کے حالات آپ کے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔ میں بطور طالب علم، یہ دکھ آج بھی اپنے معزز استاد کی آنکھوں میں بآسانی دیکھ سکتی ہوں۔ آج بھی جب کبھی تذکرہ چھڑ جائے تو آپ کے لبوں سے ”مشرقی پاکستان‘‘ کا نام ایک انجانی کیفیت کے ساتھ سنائی دیتا ہے۔ اس بات کا اثر بالواسطہ یا بلاوسطہ طور پر کہیں نہ کہیں میری ذات پر بھی ہوا۔ اب کبھی دوست و احباب میں بنگلہ دیش سے متعلق کوئی تذکرہ چھڑ جائے تو جابجا میرے اندر سے اپنے محترم استاد ڈاکٹر خالد اقبال یاسر کی طرح لفظ ”مشرقی پاکستان‘‘ نکلتا ہے۔ جیسا کہ سقوطِ ڈھاکہ کےتمام حالات آپ کی آنکھوں کے سامنے گزرے اور یہ کوئی آسان بات نہیں جہاں آپ کا دل بستہ ہو اُس نگری کو اپنی آنکھوں سے اُجڑتے ہوئے، بے بسی کے عالم میں دیکھنا۔۔۔ سقوطِ ڈھاکہ کے اثرات ڈاکٹر صاحب کے اشعار میں جابجا دکھائی دیتے ہیں، جیسے کہ:
بارشوں کے زور میں گلیوں کو سونا کر دیا
شہر کے ماحول میں پھیلی ہوئی دہشت نہ تھی
جلد ہی آجائے گا اب تو نتیجہ سامنے
اس سے پہلے کشمکش میں اس قدر شدت نہ تھی
پاکستان آمد کے بعد ڈاکٹر خالد اقبال نے ہیلے کالج آف کامرس میں داخلہ لیا۔ علم حاصل کرنے کا اشتیاق اورادب سے لگاؤ نے مکمل طور پر آپ کو ادب کی جانب گامزن کیا۔ تعلیم سے رغبت بقول سر کے، جنیاتی طور پر ورثے میں حاصل ہوئی۔ چوں کہ خاندان میں دو سے تین کُتب خانے موجود تھے اور ڈاکٹر صاحب کے نانا مولوی محمد بخش اپنے زمانے کے نہایت معزز اور علم شناس شخصیت کے حامل تھے لہٰذا ادبی رجحان جنیاتی طور پر خاندانی تحفے میں ملا۔ آپ لڑکپن میں تعلیمی اداروں کے طلباء میگزین کے مدیر بھی رہے۔ آپ نے سرگودھا سے ”سنگِ میل‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا. چوں کہ رسالہ چھپوانے کے اتنے وسائل نہ تھے، لہٰذا اس رسالے کو ہاتھ سے تحریر کیا گیا۔ بقول ڈاکٹر صاحب کے، یہاں سے ان کے کیریئر کا آغاز بطور مدیر ہوا جو اب تک چلا آرہا ہے۔ آپ نے اپنے استاد ملک محمد عباس مرحوم کی ایک نظم ایبٹ آباد میں منعقد ہونے والے بین الکلیاتی مشاہرے میں پڑھی اور آپ کو تیسرے انعام سے نوازا گیا۔ جس پر آپ کی حوصلہ افزائی تو ہوئی ہی اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک احساس نے جنم لیا کہ آئندہ کوئی ایسا مشاہرہ منعقد ہوا تو اس میں اپنی لکھی ہوئی غزل یا نظم پڑھوں گا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کے بعد آپ نے باقاعدہ علم عروض کی تربیت حاصل کی اور غزل کے میدان میں ایک مصرے کی گرہ لگاتے ہوئے باقاعدہ طور پر قدم رکھا۔
کہہ رہی ہیں مجھ سے یہ انسان کی مجبوریاں
زندگی اک زخم ہے اور زخم بھی تازہ نہیں
میرا چوں کہ ادب سے تعلق ہے اور ادبی کلاس میں ادب سے متعلق معلومات میں اضافہ کرنا مشغلہ بھی ہے تو ایک تذکرے کے دوران ڈاکٹر صاحب کی شعری اصناف کے بارے میں جاننے کا موقع ملا اور معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک طویل تر نظم کی کتاب بعنوان ”رخصتی‘‘ لکھی۔ اس رخصتی کا اثر اس قدر طویل تھا کہ دو تین مہینے ڈاکٹر صاحب اسی میں گم رہے اور اس نتیجے میں رخصی کا اختتام ایک نہیں بلکہ کثیرالجہتی رہا۔ تاہم اس وسیع تر کینوس سے کئی پہلو اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر کا پہلا شعری مجموعہ ”دروبست‘‘ کے عنوان سے 1990ء میں منظرِ عام پر آیا جوکہ چار مجموعوں پر مبنی ہے۔ آپ کی شاعری کی دیگر کتب میں ”گردش‘‘، ”رخصتی‘‘ (طویل نظم کی کتاب)، ”مزاج‘‘، ”آرسی‘‘ اور ”نفیری‘‘ شامل ہیں. ڈاکٹر خالد کی نظمیں اور غزلیں 1969ء سے اب تک اُردو کے ہر اہم پرچے میں مسلسل شائع ہوتی رہی جن میں ”سیارہ‘‘، ”فنون‘‘، ”اوراق‘‘ اور دیگر مختلف ادبی جرائد شامل ہیں۔
1969ء میں ماہنامہ ”سیارہ ڈائجسٹ‘‘، جس کی ادارت نعیم صدیقی صاحب کرتے تھے، میں ڈاکٹر صاحب کی ایک نظم ”اعتراف‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد 1970ء میں دو غزلیں ”فنون‘‘ کی زینت بنیں. اس آغاز کے بعد اردو کو کوئی ایسا ادبی پرچہ نہیں جس میں آپ کا کلام شائع نہ ہوا ہو۔
ڈاکٹر خالد اقبال کی عملی زندگی کا آغاز مسلم کمرشل بنک میں بطور آفیسر ہوا. کچھ عرصے بعد ترکِ ملازمت کرتے ہوئے عمان کے دارالحکومت مسقط چلے گئے اور وہاں محکمہ دفاع میں اکاؤنٹس کے شعبہ میں تقریباً سوا دو سال تک زیرِ ملازمت رہے۔ وطن واپسی پرتعلیم کے نامکمل ہونے کےاحساس نے جکڑ لیا۔ آپ اس وقت تک گریجوایٹ ہی تھے اور آپ کی ذہنی قابلیت آپ کو اعلیٰ تعلیم کی جانب مائل کرتی رہی، تاہم وطن واپسی پر قائد اعظم یونیورسٹی سے مطالعہ پاکستان میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور ساتھ ہی ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے بھی کیا۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب ادارہ برائے دیہی ترقی میں شعبہ مطبوعات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہوئے۔ وہاں سے آپ ”اکادمی ادبیات پاکستان‘‘ میں 2000ء تک چھ سات ماہ بطور ڈپٹی ڈائریکٹر، ایڈیٹر اور خراماں خراماں ترقی کا سفر کرتے ہوئے ڈائریکٹر اور پھر 2009ء میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔
بعد میں ”اکیڈیمی آف ایجوکیشنل پلیننگ مینیجمنٹ‘‘ میں ایک سال تک ڈائریکٹر رہے، تاہم تبادلہ ہونے کی صورت میں سات آٹھ سال ”اُردو سائنس بورڈ‘‘ سے منسلک رہے. اس کے بعد پھر سے ”اکادمی ادبیات پاکستان‘‘ میں بطور ڈائریکٹر جنرل تعینات ہوئے اور ایک ادارہ ”قومی مرکز برائے آلاتِ تعلیم‘‘ نگران منتخب ہوئے۔ آپ نے ”نیشنل میوزیم آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ میں بھی خدمات سر انجام دیں اور آپ کی ریٹائرمنٹ 2012ء میں ”اُردو سائنس بورڈ‘‘ سے ہوئی۔
شعری مجموعوں کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر کی دیگر اصنافِ ادب پر مشتمل کتب بھی شائع ہو چکی ہیں جن میں تراجم کی کُتب بھی ہیں۔ ان ترجمہ شدہ کتابوں میں شاعری، فکشن اور حوالہ جاتی کُتب شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نوبل انعام یافتہ افراد کی مختلف شعبوں پر تقریباً چھے جلدوں پرمبنی انسائیکلوپیڈیا کی تدوین بھی ڈاکٹر صاحب کا کارنامہ ہے. ”اُردو سائنس انسائیکلوپیڈیا” دس جلدوں پر مبنی سلسلہ ہے جس میں فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، جغرافیہ اورسائیکالوجی کے کم و بیش تین ہزار تصورات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا کی تاریخ پر پہلی اُردو کتاب ڈاکٹر صاحب کی ہی لکھی ہوئی ہے۔
آپ کی تنقیدی کتب میں ”احوال و آثار‘‘، ”اچھا پھر‘‘ اور ”ادب اور زمانہ‘‘ شامل ہیں۔ اپنی کتاب ”احوال و آثار‘‘ میں آپ نے ”لوک ورثہ‘‘ اور ”لوک پنجاب‘‘ پر عمیق روشنی ڈالی ہے۔ علاوہ ازیں مطالعہ اقبال کے حوالہ سے آپ کی ایک کتاب ”ادبی فکری تحریکات اور اقبال‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی جو تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے۔ ”خراج‘‘ کے نام سے ایک کتاب بہت جلد منظرِعام پر آ رہی ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے مختلف ہستیوں کے فن اور شخصیت پر لکھے گئے مضامین کو شامل کیا ہے. ساتھ ہی مزید شعری مجموعے بھی زیرِ ترتیب ہیں جو جلد ہی منظرِعام پر ہوں گے۔
میں اپنے اس مضمون کا اختتام میں اپنے عزیز اُستاد محترم جناب پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر کی ایک دل چھو لینے والی غزل سے کرتی ہوں، جن سے میں نے علم کا بیشِ قیمت خزانہ حاصل کیا:
اپنا میرا وہاں پہ کوئی بس نہیں رہا
رہنے کو جی نہیں تھا میرا، بس نہیں رہا
دوآتشہ سے کم نہ ہو آبِ گراں خمار
صہبائے نیم رس سے کبھی مَس نہیں رہا
فطرت وہی ہے، زہر وہی، سانپ بھی وہی
پھنکار تو رہا ہے مگر ڈس نہیں رہا
مکرو فریب سے مجھے کر تو لیا ہے زیر
مشکیں مگر حریف میری کَس نہیں رہا
اتنی بھی شاید اب میری وقعت نہیں رہی
حاسد بھی فقرہ مجھ پہ کوئی کَس نہیں رہا
پتلا رہا خطاؤں کا وہ ساری زندگی
میں بھی بزعم خویش مقدس نہیں رہا
اپنی ہی فکر کرنے کی نوبت بھی آگئی
یاسر خیالِ ہر کس و ناقص نہیں رہا