میرے کتب بینی کے استاد محترم سجاد امین صاحب کی طرف سے تحفہ کے طور پر بھیجے گئے ایک اور خوب صورت، دل چسپ اور تاریخی ناول ’’نولکھی کوٹھی‘‘ کا مطالعہ اپنے اختتام کو پہنچا. سجاد امین صاحب نئے پڑھنے والوں کو کتاب کی طرف راغب کرنے کا فن جانتے ہیں اور میں بھی پڑھنے کا ذوق رکھنے والے دوستوں کو یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔
کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو قاریئین کے دل کی کیفیات یکسر بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ کتاب ’’نولکھی کوٹھی‘‘ کو پڑھنے والوں کے لیے مشورہ ہے کہ اپنے دل کو تھام کر رکھیں اور سب کام کاج کرنے کے بعد اسے پڑھنا شروع کریں کیوں کہ اس کے ابتدائی صفحات ہی قاری کو اپنے سحر میں ایسے جکڑتے ہیں کہ کتاب کا اختتام کب ہوا، اندازہ ہی نہیں ہوتا۔
ناطق جہاں ناول کی ابتدا میں قارئین کو دل چسپ اور دلفریب انداز میں الفاظ کے زیرِِ اثر لاتے ہیں، وہیں اس کے اختتام پر قارئین کے دل چیر دیتے ہیں اور آنسوؤں کی جھڑیاں آنکھوں سے بہنے لگتی ہیں۔ بظاہر تو یہ ناول تقسیمِ ہند کے موضوع پر لکھا گیا ہے لیکن اس میں اس وقت کی انگریز افسر شاہی اور پاکستان کی موجودہ بیوروکریسی کی ذہنی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ ناول ضلع فیروزپور کے دیہات اور ہندوستان کی انگریز بیوروکریسی کے پسِ منظر میں لکھا گیا ہے. یہ ناول انگریز افسروں، مقامی وڈیروں کی بدمعاشی، تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات، ہجرت کی روداد اور قیام پاکستان کے بعد درجہ بدرجہ سول سروس کی تنزلی کے گرد گھومتا ہے۔ اس ناول کو قاری اسسٹنٹ کمشنر ولیم کی سوانح کہہ سکتا ہے جس کے تکلیف دہ انجام پر مصنف خود ڈرامائی انداز میں نمودار ہوتا ہے۔
ناول میں موجود تاریخی نولکھی کوٹھی سمیت کئی حقیقی کردار بھی ہیں اور درمیان میں بہت سی جگہوں پر کئی پردہ نشینوں کا ذکر بھی آتا ہے۔ مصنف نے تقسیم سے قبل کے غیر منقسم پنجاب کے وسط کا نقشہ اس خوب صورتی سے پیش کیا ہے کہ پڑھنے والے کی طبعیت خوش ہو جاتی ہے۔ ناول میں منظر نگاری کو کمال درجہ تک پہنچایا گیا ہے. گویا سارا منظر قاری کے تصور میں فلم کی طرح گھومنے لگتا ہے، چاہے وہ نولکھی کوٹھی ہو، ولیم کا جلال آباد والا بنگلہ، غلام حیدر کی حویلی ہو یا پھر سودھا سنگھ کا ڈیرہ ہو، ہر منظر کو کمال خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ ناول نگار موسموں کا حال بیان کرنے میں ایسی مہارت رکھتے ہیں کہ جون کی سخت گرمی ہو، جولائی کی شدید حبس ہو یا پھر جما دینے والی سردی ہو، قاری کو ہر موسم کی شدت محسوس ہونے لگتی ہے۔
مصنف تقسیم سے قبل اکھٹے رہنے والے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی نفسیات کو بھی قارئین کے سامنے لاتے ہیں۔ پھر ان تینوں قوموں کی نفسیات کو تقسیم سے قبل اور تقسیم کے وقت فسادات کے دوران بھی سامنے لا کر ان کی فرداً فرداً کمزوریوں پر کھل کر تبصرہ کرتے ہیں۔ ناطق صاحب اپنے قارئین کو کسی خاص کردار میں مگن نہیں ہونے دیتے، وہ ناول کے ہر کردار کا نقش قاری کے ذہن پر چھوڑتے ہیں. جہاں کہیں کسی کردار کا رعب پڑھنے والے پر حاوی ہوتا ہے، وہیں ناول سے اس کی رخصتی کروا دیتے ہیں۔ اس کے باوجود ولیم سمیت دو ایک کردار ایسے ہیں جو دل و دماغ پر اپنا نقش چھوڑنے میں نمایاں ہیں۔ علاوہ ازیں قاری اس ناول کے کرداروں کو منفی اور مثبت کے خانوں میں چن کر نہیں ڈال سکتا۔ وہ اچھے بھی ہیں اور برائی سے بھی بری الزمہ نہیں ہیں۔ ان کے اخلاقی اقدار کو پرکھنے کا اختیار مصنف نے پڑھنے والے کو دے دیا ہے۔
مجھے سب سے دلچسپ کردار مولوی کرامت، فضل دین اور نواز الحق کے لگے۔ کس طرح ہر شے کو مذہبی جواز فراہم کر کے یہ ”سادہ‘‘ طبیعت دادا، بیٹا اور پھر پوتا ”ترقی‘‘ کی منازل طے کرتے ہیں۔ ان تین کرداروں کی تخلیق میں ناطق صاحب نے طنز کے نشتر کا جو بے تحاشا استعمال کیا ہے وہ کسی بھی زاویے سے، کردار کے ساتھ زیادتی معلوم نہیں ہوتی۔ ناطق صاحب نے پاک و ہند کی تقسیم کے دوران ہونے والے فسادات کے حوالے سے بھی کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی، جسے پڑھ کر مجبوراً قاری کی آنکھوں سے کسی ایک قوم کی ناحق معصومیت کی پٹی اتر ہی جاتی یے۔ انہوں نے ان فسادات اور ظلم و ستم کی داستانوں کو ذات پات اور مذہب سے بالا تر ہو کر، خالصتاً انسانی نفسیات کی بنیاد پر پرکھا، جانچا اور بیان کیا ہے۔
ناطق نے اس ناول کے ذریعے قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی پاکستانی بیرو کریسی، اداروں اور سیاسی خداؤں کے کردار کی کالک کو بھی بھرپور طریقے سے متعارف کروایا ہے. (جس کس کا ہمیں پہلے سے علم ہی نہیں ہے.)
البتہ ناول نویس نے قیامِ پاکستان سے لے کر جنرل ضیاء الحق کے دور تک رونما ہونے والے واقعات کو بہت جلد بازی میں بیان کیا ہے، جو ابواب کے بجائے شہ سرخیاں معلوم ہوتے ہیں۔ ناول کی زبان بہت سادہ ہے۔ اس کتاب کے ذریعے اُردو اور پنجابی کے کئی نئے الفاظ سیکھنے کو ملتے ہیں جو قارئین کی طبیعت پر بالکل بھی گراں نہیں گزرتے۔
عزیز قارئیں اگر آپ نے ابھی تک اس کتاب کو نہیں خریدا تو فوراً خریدیں. اگر خرید رکھا ہے اور پڑھا نہیں، تو فوراً پڑھیں اور اگر نامکمل چھوڑا ہے تو جلدی مکمل کریں کیوں کہ اس دور میں ایسے ناول اب شاد و نادر ہی نظر آتے ہیں۔
”تانبے کی زمین“، شفیق اختر حر کے منفرد کالموں کا دوسرا مجموعہ – محمد اکبر خان اکبر
کتاب چھپوانے کا سفر، ایک دلچسپ رُوداد – عاطف ملک
”سمندر گنگناتا ہے‘‘، ادبِ اطفال میں ایک منفرد اضافہ – محمد اکبر خان اکبر
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر