’’افکارِ پریشاں‘‘ کا عمومی جائزہ – محمد اکبر خان اکبر

تخلیقِ شعر کے کئی اسباب اور محرکات ہوسکتے ہیں مگر حساس طبعیت اور مشاہدے کی گہرائی، گیرائی اور قوتِ مخترعہ کی بدولت ہی اعلٰی اور دل میں اتر جانے والے اشعار سامنے آتے ہیں. منیر انور کا شمار ایسے شاعروں میں ہوتا ہے جو اعلٰی شاعر کی جملہ خصوصیات سے خوب آراستہ ہیں. ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’’افکارِ پریشاں‘‘ اور پہلا مجموعہ کلام ’’افکارِ مسافر‘‘ میں بہت سے افکار مشترک دکھائی دیتے ہیں. اس کا سب سے بڑا سبب میری دانست میں غریب الوطنی ہے. دیگر اسباب بھی وطن سے دوری کی دوسری جزئیات سے متعلق ہیں.
منیر انور کی شاعری میں تغزل کا رنگ بہت گہرا معلوم ہوتا ہے. ان کی غزل رمز و ایمائیت اور غزل کی اکثر رعنائیوں سے معمور ہے. ان کی غزل میں تروتازگی بھی ہے اور ان کے تجزیاتی افکار و دانش مندی بھی. یہی وجہ ہے کہ ’’افکارِ پریشاں‘‘ کی صورت ان کی سخن دانی کے دیگر محاسن کسی بھی نقاد کے کو متوجہ کرنے کی کامل صلاحیت رکھتے ہیں.

نوید رنج و غم جو لائے افکار پریشاں تھے
جو بن کر غم کے بادل چھائے افکار پریشاں تھے
دل بے فکر کی غم سے بعید آباد دنیا میں
زبردستی سے جو در آئے افکار پریشاں تھے
غم فرقت بیاں کرتے دل مغموم نے انور
جو نغمے سوز غم میں گائے افکار پریشاں تھے

منیر انور کی شاعری میں اہم ترین کیفیت رنج و الم کی ہے. انھوں نے رنج و محن کو معنویت کی معراج سے آشنا کرنے کی بھر پور کاوش کی ہے.
ان کی شاعری میں سوز و گداز کی اثر انگیزی نمایاں ہے جو قارئین پر گہرا تاثر قائم کرتی ہے.
نوید صادق لکھتے ہیں کہ ”شاعری اپنے قاری سے گفتگو کا درجہ رکھتی ہے، اپنا کتھارسس ہے قاری کو اپنے تجربات و مشاہدات اور محسوسات میں شریک کرنے کا دوسرا نام ہے. جذبوں کی تربیت ہے.‘‘
مجھے منیر انور کی شاعری درج بالا تمام مطالب بیان کرتی محسوس ہوتی ہے. منیر انور کی شاعری میں انبساط انگیز یادوں کی پررونق دنیا بھی ہے اور دیروز و امروز غموں کے ویرانے بھی. البتہ میرا یہ قوی خیال ہے کہ ان کے ہاں رنج و الم دکھ، کرب اور حسرتوں کا پلڑا کافی بھاری ہے.

موجزن ہے حسرتوں کا اک سمندر بے کراں
چشم پر نم کے عقب میں اور دل خاموش میں

ایک اور غزل میں رنگ الم ملاحظہ کیجیے:

دہکتی غم کی تپش تھی ٹھنڈی چھاؤں تھی بظاہر
دل کی دہلیز پہ لہرائے جو یادوں کے سائے

ایک غزل کا مطلع دیکھیں:

آپ کی یادوں کا سرمایہ سدا رکھوں گا پاس
آپ کی یادیں سہارا دیں گی جب ہوں گا اداس

ایک اور غزل کا مطلع بھی کیفیتِ غم کچھ اس طرح پیش کرتا ہے:

مدتوں سے ہم غموں سے برسرِپیکار ہیں
سچ تو یہ ہے کہ ہم اب جینے سے بیزار ہیں

اس شعر میں ناامیدی کا گہرا اثر موجود ہے کہ شاعر اس قسم کی کیفیات سے گزر رہا ہے کہ اسے زندگی سے محبت ہی نہیں رہی اور وہ اس سے دامن چھڑا کر رنج و الم کی طویل کشاکش سے الگ ہونے کا خواہاں ہے.
منیر انور کی نظم نگاری قدیم و جدید نظم نگاری کا عمدہ نمونہ ہے. ان کی نظموں میں موضوعات کا تنوع ہے، ساتھ ساتھ فکر و ادراک کی گہرائی بھی موجود ہے جو ان کی دور اندیش طبعیت اور دانش مندانہ سلیقے کا اعلٰی اظہار کرتی ہے.
منیر انور کی شاعری حسن و خوبی اور ندرت خیال سے عبارت ہے. ان کے ہاں تخیل اور حقائق کا منفرد امتزاج نظر آتا ہے. ان کا کلام دلچسپی اور اثر انگیزی کا حامل ہے. ان کی غزلیں میں نزاکت، مرقع کاری، دردمندی اور غم کا ادغام بھی دکھائی دیتا ہے.
ان کے اس مجموعہ کلام میں حقیقت نگاری بھی ہے اور فطرت نگاری کی جھلکیاں بھی. وہ سادہ اسلوب بیان اور عام فہم انداز میں اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں. ان کی سخن دانی غنائیت، ترنم اور تازگی سے مزین ہے. ان کا یہ مجموعہ کلام متاثر کن اور دل کو چھو لینے والا ہے.