اُردو کے مشہور و معروف شاعر و ادیب، امیر مینائی کی تالیف کردہ ’’امیراللغات‘‘ کا تنقیدی جائزہ – آمنہ سعید

امیر مینائی اُردو کے مشہور و معروف شاعر و ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ لغت نویس اور زبان دان بھی تھے۔ آپ 21 فروری 1828ء میں شاہ نصیر الدین شاہ حیدر نواب اودھ کے عہد میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ امیر احمد نام، مولوی کرم محمد کے بیٹے اور مخدوم شاہ مینا کے خاندان سےتعلق رکھتے تھے۔ درسی کتب مفتی سعد اللہ اور ان کے ہم عصر علمائے فرنگی محل سے پڑھیں۔ خاندان صابریہ چشتیہ کے سجادہ نشین حضرت امیر شاہ سے بیعت تھی۔ شاعری میں اسیر لکھنوی کے شاگرد ہوئے۔ آپ نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور ان کا نعتیہ کلام بے حد مقبول ہوا۔ زیرِ نظر ان کی مشہور تصنیف ’’امیراللغات‘‘ ہے ۔
’’امیراللغات‘‘ کی داغ بیل اس وقت پڑی جب امیر مینائی نے سرالفریڈ لائل کے ایماء اور نواب کلب علی خاں کے حکم سے ”آنکھ‘‘ اور ”ظائے مغتوطہ‘‘ کے الفاظ و مرکبات کا نمونہ مرتب کر کے 1886ء میں تاج المطابع رام پور سے ”نمونہ امیر اللغات‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ اس لغت کی دو جلدیں منظرِ عام پر آئیں۔ اُردو داں طبقہ کا ماننا ہے کہ اگر امیر مینائی کو زندگی مہلت دیتی تو وہ اُردو کی مستند ترین لغات کی جلدیں مکمل کردیتے جو اُردو ادب میں کسی قیمتی سرمایہ سے کم نہ تھا۔
’’امیراللغات‘‘ کا پہلا حصہ (الف ممدودہ) 1891ء میں مطبع مفید عام ”آگرہ‘‘ سے اور دوسرا حصہ بھی 1892ء میں ”آگرہ‘‘ ہی سے شائع ہوا۔ یہ دونوں جلدیں صرف الف ممدودہ اور الف مقصورہ تک محدود ہیں لیکن ان جلدوں میں امیر مینائی نے ایک ایک لفظ کی سند میں کئی کئی اشعار نقل کیے جو بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ 1895ء میں اسی لغت کے تیسرے حصے (جس میں ”ب‘‘ کے الفاظ شامل تھے) کی تدوین تقریباً مکمل ہو چکی تھی لیکن لغت کے اس حصے کی اشاعت کے لیے سرمایہ نہ ہونے کی صورت میں یہ منظرِعام پر نا آسکی۔ جولائی 1898ء میں کچھ الفاظ تحقیق طلب رہ گئے تھے اور ”پ‘‘ کے الفاظ کا چوتھا حصہ زیرِ ترتیب تھا کہ اکتوبر 1900ء میں جناب امیر مینائی ابدی نیند سو گئے۔
جس طرح ”فرہنگِ آصفیہ‘‘ سید احمد علی دہلوی کی تن تنہا کاوش کا نتیجہ ہے اسی طرح ”امیر اللغات‘‘ (جلد اوّل اور جلد دوم) امیر مینائی کی ذہنی صلاحیت کا نتیجہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ”فرہنگ آصفیہ‘‘ کے مؤلف کو فرہنگ کی تدوین سے قبل مستشرق لغت نویس ڈاکٹر فیلن کے ساتھ کام کرنے اور ان کی چند ذاتی لغات ترتیب دینے کی وجہ سے لغت نویسی کا خاصا تجربہ حاصل ہو چکا تھا جب کہ امیر مینائی نے صرف ذہن میں خاکہ تیار کرنے کی خاطر ”امیر اللغات‘‘ کی تدوین کے سلسلے میں چند معززین سے آراء طلب کرنے کے علاوہ مغربی یو۔پی اور دلی کے دورے کیے اور بعض اخبارات کے ذریعے لوگوں کی رائے معلوم کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جناب امیر مینائی خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ کسی بھی کام کو مستند بنانے کے لیے کئی تحقیقی مراحل سے گزرنا ازبس ضروری ہے۔
ڈاکٹر ابومحمد سحر کی روایت کے مطابق:
”امیر اللغات‘‘ کا نمونہ تنہا امیرکی کوششوں کا نتیجہ تھا، لیکن اس کی اشاعت کے بعد لغت کی تیاری کے لیے انھوں نے چھ افراد پر مشتمل ایک مشاورتی کمیٹی قائم کی تھی۔ دن میں لغات کا جو مسودہ تیار ہوتا تھا اور رات کو کمیٹی میں اس پر بحث کی جاتی تھی۔ ایک مہینہ تک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن بحث و مباحثے نے اتنا طول کھینچا کہ ”آہ‘‘ کا لفظ بھی پورا نہ ہو سکا اور آخر کار یہ طے ہوا کہ امیر مینائی خود اپنی رائے پر عمل کریں۔‘‘
جہاں تک ”امیر اللغات‘‘ میں شامل اندراجات کی اصل یا ان کے مآخذ لسانی کی نشاندہی یا پھر ان کی قواعدی نوعیت کی طرف اشارہ کرنے کا سوال ہے تو اس میں شک نہیں کہ مؤلف نے اس سلسلے میں زبردست تحقیق سے نہ صرف کام لیا بلکہ اپنی بات کو مدلل طریقہ سے پیش کرنے کی سعی بھی کی۔ لغت نویسی کے جدید اصولوں کی جھلک کے تعلق سے اس میں چند باتیں ایسی بھی ہیں جو اس کی نفی کرتی ہیں۔ جہاں تک اس لغت کے دونوں حصوں کے اندراجات کا تعلق ہے تو اس پر بھی ”فرہنگِ آصفیہ‘‘ والی بات صادق آتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مؤلف نے ”فرہنگِ آصفیہ‘‘ میں بول چال کی زبان کو زیادہ اہمیت دی جب کہ ”امیر اللغات‘‘ میں شعری اصناف و ترکیبات کی بہتات ملتی ہے۔
اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ ”امیر اللغات‘‘ کی تدوین کے وقت امیر مینائی کے سامنے اس وقت کی متداولہ لغات رہی ہوں گی اور ان لغات کے اندراجات کو انھوں نے اپنی لغت میں شامل بھی کیا مگر بہت سے انداجات کو القَط بھی کیا ہے۔
”فرہنگِ آصفیہ‘‘ کے مؤلف نے ”امیر اللغات‘‘ پر اپنی لغت ”ارمغانِ دہلی‘‘ کی ہوبہو نکل کا الزام متعدد بار لگایا۔ پہلے تو دہلی سے شائع ہونے والے ”اکمل الاخبار‘‘ میں اس الزام سے متعلق مضامین لکھوائے گئے پھر ”فرنگِ آصفیہ‘‘ کی جلد اوّل اور چہارم کے دیباچوں میں بھی اس کا تذکرہ کیا گیا۔
”فرہنگِ آصفیہ‘‘ کے اس الزام کے سلسلے میں ڈاکٹر حامد حسن قادری کی رائے ہمیں ملتی ہے کہ مولوی سید احمد دہلوی کی اس فضیلت میں شک نہیں کہ انھوں نے اُردو کی سب سے بڑی اور مکمل لغت سب سے پہلے مرتب کی اور 1878ء میں ”ارمغانِ دہلی‘‘ شائع کی۔ منشی امیر مینائی کو ”امیر اللغات‘‘ کا خیال بعد میں آیا۔ تاہم، انہوں نے 1884ء میں سب سے پہلے ”آنکھ‘‘ کا نمونہ مرتب کیا۔ امیر مینائی کے سامنے فرہنگ کا نمونہ موجود تھا یقیناً اس سے استفاضہ کیا ہوگا لیکن اس کی ہو بہو نقل نہیں کی۔ سید صاحب کی لغات کو امیر مینائی نے خود جانچتے ہوئے غیر ضروری انداجات کو نہ صرف ترک کیا بلکہ وہ ضروری محاورات تدوین کے وقت جو رہ گئے تھے، ان کا انداج کرتے ہوئے اضافہ بھی کیا۔ لہٰذا ان دونوں لغات کے اس سر سری موازنے سے پہ بات واضح ہوتی ہے کہ امیر مینائی کی لغت ”امیر اللغات‘‘ کو ”ارمغان ِدہلی‘‘ کی ہو بہو نقل کہنا یا پھر اس کے مؤلف پر سرقے کا الزام لگانا غلط ہوگا۔
”امیر اللغات‘‘ میں اندراجات کی اصل، ان کے ماخذ لسانی کی نشاندہی اور تلفظ کی وضاحت کے سلسلے میں پوری تحقیق سے کام لیا گیا ہے۔ اس لغت کا یہی وہ حصہ ہے جو اسے اُردو لغت نویسی میں خاص اہمیت کا حامل بنا تا ہے۔ امیر مینائی نے لغت نویسی کے سلسلے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا کہ کسی انداج کے تلفظ کے اختلاف رائے ہونے کی صورت میں اپنی تحقیقی آراء کو پیش کیا ہے تا کہ قاری پر بات کی مکمل وضاحت ہو اور اس کو اپنی راہ کا انتخاب کرنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
”امیر اللغات‘‘ کے مؤلف نے اپنی لغت میں غیر لغاتی عنصر کی بھر مار کر کے لغت نویسی کے جدید اصولوں اور ان کے تقاضوں سے نا آشنائی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ یہ لغت صرف پہلے حرف (الف ممدوده) اور (الف مقصورہ) تک ہی شائع ہو سکی، اس اس لیے بھی اس کا شمار اُردو کی باقاعدہ اور مکمل لغات میں نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان کی اس کوشش نے بعد کے لغت نویسوں کے لیے مشعلِ راہ کا کام سرانجام دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں