بچوں کے ادب کی طلسماتی پرکشش دنیا میں جب میں نے قدم رکھا تو اس وقت محبوب الہٰی مخمور بھی میری طرح جہد مسلسل کی سیڑھیاں طے کررہے تھے۔ انھی سیڑھیوں سے میں تو پھسل کر جلد ہی گرا اور ڈھیر ہوگیا. پھر میری آنکھ کھلی بڑوں کی صحافت میں، اور اس کے بعد کبھی خوشی کبھی غم کی طرح میں تو بچوں کے ادب کی جادوئی غلام گردشوں سے گزرتا رہا اور بھول بھلیوں میں کہیں نہ کہیں گم بھی ہوتا رہا۔ میری طرح اور بھی ایسے کمزور حوصلے والے ادیب تھے۔ جس انسان نے خم ٹھونک کر اس بے رحم جادوگر سے ڈٹ کر مقابلہ کیا، جو سچائی اور فنکار کا دشمن ہے، جو حوصلوں اور جذبوں کو پگھلا کر دھواں بنا دیتا ہے، جو بڑے بڑے زرخیز اذہان کو بنجر ریگستانوں میں بھٹکانے کا کام کرتا ہے، جو ظالم سامری جادوگر کی سی قوت کا حامل ہے، اس ظالم کے سامنے جس نے ہار نہیں مانی اس مرد آہن کا نام محبوب الہٰی مخمور ہے۔
آج جب میں اس کے اور اپنے مشترکہ ماضی پر نظر ڈالتا ہوں اس کردار کے دھنی کے احترام میں بے اختیار اسے سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
محبوب الہٰی مخمور سے میری پہلی ملاقات، بے شمار ملاقاتوں کے دلفریب مناظر میں کہیں گڈ مڈ ہوگئی ہے، لیکن اتنا یاد ہے کہ ”ٹوٹ بٹوٹ‘‘ میں وہ جب بھی مجھ سے ملنے اور اپنی کہانی کے شائع نہ ہونے کا شکوہ لے کر آتا تھا اور اپنے نشانے پر لگنے والے تیروں جیسے دلائل سے مجھے پسپا اور زخمی کرنے کی سعی کرتا تھا تو میرے پاس اسے جواب دینے کے لیے بس ایک دلیل ہوتی تھی کہ ہر مہینے 80 کہانیاں موصول ہوتی ہیں، ”ٹوٹ بٹوٹ‘‘ میں 8 کہانیاں چھاپنے کی گنجائش ہوتی ہے، تو کیا کیا جائے؟ بہر حال اس کے پائے استقلال ہمیشہ سے جم کر کھڑے ہونے کے لیے تھے. اس نے ہمت نہیں ہاری اور ایک مہینہ ایسا آیا جب اس کی لکھی ہوئی سائنس فکشن کہانی ”امن مشن‘‘ میرے ہاتھوں سے نکل کر طباعت کے مرحلوں سے گزری اور… اور… اس کہانی نے دھوم مچانے میں کسر اٹھا نہیں رکھی۔ چناں چہ ”ٹوٹ بٹوٹ ایوارڈ‘‘ کے لیے وہ ہی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے ایوارڈ کی حق دار قرار پائی۔ یہی وہ کہانی ہے جس نے محبوب الہٰی کے بارے میں اس تاثر کو پاش پاش کرنے میں کردار ادا کیا کہ محبوب الہٰی کہانی کے میدان میں ایک کمزور سوار ہے۔ ”امن مشن‘‘ نے یہ بات غلط ثابت کر دی. کم زیادہ کے حساب میں وہ بہر حال اپنے عہد کا ایک قابلِ ذکر ادیب سمجھا اور مانا گیا۔ کہانی کو تسلسل سے جاری نہ رکھنے کے اور کئی اسباب ہوسکتے ہیں لیکن بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے محبوب نے جس طرح اپنے دن رات ایک کیے ہیں، اس کے لیے اور بہت سے گواہوں کے ساتھ ایک گواہ میں خود ہوں۔ وہ بچوں کے ادب کا ایدھی ہے جس نے ادبِ اطفال کو خدمتِ انسانی کی طرح اس نوع اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا کہ وہ جاگتا تو اسی کے ساتھ اور سوتا تو اسی کو اوڑھ کر۔
جب میں دوسری ادبی تنظیموں کا حصہ تھا تو وہ ”علامہ اقبال رائٹرز ایسوسی ایشن‘‘ کا میرِ کارواں تھا۔ وہ ہماری منعقدہ ادبی مجالس میں شریک ہوتا اور ہم اس کے بلائے ہوئے جلسوں کا حصہ بنتے. تحمل، بروئے کار ولولہ اور موقع کی مناسبت سے گفت و شنید، نشست و برخاست اس کی شخصیت ایک تربیت شدہ باوقار معتبر انسان کی طرح تھی۔ دن رات کی بھاگ دوڑ اور اپنے رسالے ”انوکھی کہانیاں‘‘ کو اچھے سا اچھا معیاری بنانے کے لیے وہ موسموں کی پرواہ کیے بغیر دھوپ، گرمی، سردی، برسات… الغرض ہر موسم میں، محوِ سفر اور جہدِ مسلسل میں جُتا دکھائی دیتا۔ ملازمت کے نظم و ضبط کو کیسے کھینچ کھانچ کر اپنی اس ادبی دوڑ دھوپ کے مطابق ڈھال لیتا تھا، یہ سراسر اس کے وجود میں جناتی قوتوں کی کارفرمائی جیسا کوئی عمل لگتا تھا.
محبوب الہٰی مخمور، وفا جس کی نس نس میں تیرتی ہے۔ حق اورسچ کے لیے کسی بھی نقصان کی پرواہ کیے بغیر وہ کیسے سینہ تان کر سچ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، ”دعوۃ اکیڈمی‘‘ کے سیمیناروں اور جلسوں میں، مَیں نے وہ سارے منظر خود ملاحظہ کیے ہیں۔ دولت مند تو کوئی بھی ہوسکتا ہے مگر ایدھی پچیس کروڑ کے ملک میں بس ایک ہی تھا۔ محبوب کی بھی یہی تعریف ہے حالاں کہ ناموافق وقت اور تنگ دستیوں نے اسے بھی جانے کیسے کیسے مجبور نہیں کیا ہوگا لیکن اس نے درباری کرسیوں کو سجدے نہیں کیے۔ وہ ادیب ہے۔ ادب کی آب یاری کے لیے ہراول دستے کا فرنٹ مین ہے۔ بھلا ایسی شخصیت ہر کس و ناکس کی ہوسکتی ہے۔
1978ء میں ”بچوں کے مشرق‘‘ میں پہلی کہانی شائع ہوئی۔ یہ ایک انعامی کہانیوں کا سلسلہ تھا جس میں اپریل 1978ء میں پہلا انعام حاصل کیا۔ بس پھر بِنا رکے سینکڑوں کہانیاں اور مضامین صفحہ زیست پر رقم ہوتے چلے گئے۔ پاکستان کے تمام ہی رسائل میں لکھا۔ جن میں سرفہرست ”ٹوٹ بٹوٹ‘‘، ”ہونہار‘‘، ”جگنو‘‘، ”بچوں کا ڈائجسٹ‘‘، ”نونہال‘‘، ”بچوں کا رسالہ‘‘اور ”خزانہ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ بڑوں کے لیے بھی متعدد کہانیاں، ڈائجسٹوں میں بھی لکھیں، جن میں ”سچی کہانیاں‘‘، ”دوشیزہ‘‘، ”مسرت‘‘ اور ”ریشم‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ 1992ء میں ایم اے صحافت اور 1995ء میں ایم اے اُردو کیا۔ ایک حوالہ ”انوکھی کہانیاں‘‘ بھی ہے. مصطفیٰ ہاشمی، شاہد علی سحر اور رؤف اسلم آرائیں، محبوب کے انتہائی قریبی مخلص دوست جن کے ساتھ مل کر بچوں کے لیے ”انوکھی کہانیاں‘‘ شروع کیا لیکن کچھ عرصے بعد وہ اکیلا ہی چلا جانب منزل اور گزشتہ 33 سال سے باقاعدہ اور اپنی مدد آپ کے تحت شائع ہونے والا یہ واحد رسالہ ہے جسے محبوب کی تنہا صلاحیتوں نے تھام رکھا ہے۔ وگرنہ بچوں کے رسائل کی پشت پر بڑے بڑے ادارے ہوا کرتے ہیں۔ (تاریخی طور پر) اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کا رسالہ نکالنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ کہتے ہیں اسی ناپ طول کا جائزہ لینے کے بعد ”جنگ‘‘ جیسے دیوزاد ادارے نے ”بھائی جان‘‘ کے عنوان سے جو بچوں کا رسالہ جاری کیا تھا، اسے جلد ہی لپیٹ دیا۔ تاریخ میں نقصان کے سودے ہوئے ضرور پر وہ سب دیوانوں نے کیے۔ اپنی مدد آپ شائع ہونے والے پاکستان کے اس اولین رسالے پر گذشتہ سال فیصل آباد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی گئی ہے اور یہ پی ایچ ڈی کا مقالہ کتابی صورت میں بھی میں دستیاب ہے۔ (بچوں کے ادب میں دو شخصیات محبوب الٰہی مخمور کی نظر میں قابلِ احترام ہیں، ایک محمود شام اور دوسرا نام یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ میرے لیے تو محبوب خود لائق قدر ہیں.)
محبوب الٰہی مخمور کے دو افسانوں کے مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں جب کہ بچوں کے لیے ان کی بیس کتابیں شائع ہوئی ہیں جن میں آ ٹھ کہانیوں پر مبنی ہیں اور بارہ تحریکِ پاکستان، قائد اعظم اور علامہ اقبال کے حوالے سے مرقوم ہیں۔ محبوب الٰہی مخمور کی دس سے زائد کتابوں کو نیشنل بک فاؤنڈیشن نے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔ جب کہ انہوں نے ”ٹوٹ بٹوٹ مصنف ایوارڈ‘‘ دو مرتبہ، ”یونیسیف دعوۃ ایوارڈز‘‘ پانچ مرتبہ اپنے نام کیا ہے. محبوب الٰہی مخمور نے اپنے ادارے ”الٰہی پبلی کیشنز‘‘ کے تحت پچاس سے زائد کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ ادبِ اطفال سے منسلک ہوئے 45 برس بیت گئے۔
باغ وہ ہی سربز و شاداب رہتے ہیں جن کے نگہبان بیدار رہتے ہیں. وقت کی دھوپ نے کیا کچھ جلا کر خاکستر نہ کردیا، کیسے خرمن ہستی مٹ مٹ کے پھر نمو پذیر ہوئی،کیسے دل ناتواں نے خون آشام آندھیوں سے الجھنے کی ہمت جٹائی جو جاننا چاہتے ہیں، زندگی کیسے کسی پر نازاں ہوتی ہے تو ڈھیروں کتابوں رسالوں کا بوجھ اٹھائے ایک شخص آج بھی شہر ناپرساں میں آتے جاتے، چلتے پھرتے دکھائی دیتا ہے۔ ادب زندہ ہے تو صرف اس لیے کہ اس کا بوجھ اٹھانے والے حب ادب بقید حیات ہیں، جن میں سے ایک کو دنیا محبوب الہٰی مخمور کے نام سے جانتی ہے.
ایک درد کی لذت برقرار رکھنے کو
کچھ لطیف جذبوں کی خوں سے آبیاری کی