”سوچ دروازے‘‘ معروف فکشن نگار سعید اختر ملک کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے. بے پناہ سماجی اور فلاحی مصروفیات کے باوجود اعلٰی ادبی تخلیقات کا تسلسل سے سامنے آنا، ان کی ادبی سرگرمی اور ذوق کا مظہر ہے.
سعید اختر ملک کا بچپن گاؤں میں گزرا. وہیں سے انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی. اس کے بعد مرےسکالج، سیالکوٹ اور پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور میں تعلیمی مدارج طے کیے. پاکستان کے دارالحکومت میں بھی حصولِ علم میں منہمک رہے. آپ نے سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وطنِ عزیز کے کئی محکموں میں کلیدی عہدوں پر خدمات سر انجام دیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے فرائض بطریق احسن ادا کرتے رہے.
بے شمار پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے باوجود انہوں نے علم و ادب سے رشتہ نہ صرف استوار رکھا بلکہ اپنے تجربات، احساسات، خیالات و مشاہدات کو بروئے کار لا کر میدانِ ادب کو لازوال ادبی فن پاروں سے مزین کیا.
سعید اختر ملک کی وجہ شہرت افسانوی ادب ہے، وہ ایک منفرد افسانہ نگار کے طور پر معروف ہیں. ان کی پہلی کتاب ”سوچ دالان‘‘ کو بین الاقوامی شہرت یافتہ اور معروف مصنفین بانو قدسیہ اور رشید امجد سے پسندیدگی کی اسناد مل چکی ہیں جنہوں نے سعید اختر ملک کے فن کو سراہا اور ان کی ادبی تحریروں کی خوب پذیرائی بھی کی. یہ بات بھی نہایت اہم اور قابلِ ذکر ہے کہ اُردو فکشن کی عظیم شخصیت محترمہ بانو قدسیہ نے بنفس نفیس ”سوچ دالان‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں، بطور صدر جلوہ افروز ہو کر محترم سعید اختر ملک کے فن پر اظہارِ خیال فرمایا. بلاشبہ وہ شہرِ اقتدار کی ایک یادگار اور پر رونق ادبی تقریب تھی جس میں احمد فراز، عطاء الحق قاسمی، فتح محمد ملک اور دیگر ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی.
زیرِ تبصرہ تصنیف ”سوچ دروازے‘‘ ان کی دوسری تصنیف ہے جو کہ اردو کے افسانوی ادب میں ایک اہم اضافہ ہے. ان کا یہ افسانوی مجموعہ مصنف کے مشاہدے کی گہرائی اور گیرائی کا پر کشش عکاس ہے. ان کے افسانوں میں زیست کے خفیف تر تنفس کی جھنکار سنائی دیتی ہے. وہ نہ صرف گاؤں دیہات کے طرزِ معاشرت سے آگاہ ہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں کے سماجی رویوں اور مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں. ان کے افسانے دیہی زندگی کے رجحان اور سماجی فضا کے بہترین عکاس ہیں.
سعید اختر ملک کا اسلوبِ نگارش شستہ رواں اور سلاست روی سے آراستہ ہے. ان کے ہاں تہذیب شائستگی اور اقدار کی پاسداری کا گہرا تاثر محسوس ہوتا ہے. ان کی تحریر میں شفافیت اور آفاقیت موجزن ہے. وہ رگوں میں دوڑتے پھرنے کے قائل نہیں ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے بے جا تلکف اور ظاہری بناؤ سنگھار کے بجائے سماجی زندگی کی حقیقی منظر کشی کرتے محسوس ہوتے ہیں. مصنف کی تحریر الجھاؤ سے پاک اور پر اثر ہے. ان کی تحریر مبہم اور پیچیدہ نہیں ہوتی بلکہ فی الحقیقت سوچ کے مقفل دروازوں کو کھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے. ان کے افسانوں میں معاشرتی مسائلِ کا احاطہ بھی ملتا ہے اور ان سے جڑے جذبات و احساسات کی جبھن بھی.
مصنف کہانی کی بنت، اٹھان، کرافٹ اور زبان و بیان کے ماہر ہیں. مردہ زندگی، خالی پلیٹ، سوچ دروازے ان کے نمائندہ افسانے قرار دیے جا سکتے ہیں. پہلی موت، احساس محرومی، اقرار جزیرہ میں بھی ان کا فن اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے.
سعید اختر ملک منظر نگاری اور جزئیات نگاری کا استعمال نہایت خوب صورتی اور جابکدستی سے کرتے جاتے ہیں. ان کی کہانیوں میں دیہات کی سماجی اور ثقافتی زندگی کی بھرپور جھلکیاں ملتی ہیں. بلاشبہ وہ پاکستان کے ان گنے چنے افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جو معاشرے کے نباض ہی نہیں بلکہ فنکارانہ مہارت سے بے لاگ اور سچی منظر کشی پیش کرنے میں بھی مہارتِ تامہ کے حامل ہیں. ان کے افسانوں میں کہیں کہیں گہری حساسیت کا رُخ بھی دکھائی دیتا ہے جو یقینی طور پر ان کی فکری اور قلبی کیفیت کا پرتو ہے.
دراصل ہر ادبی تخلیق کار حساس ہوتا ہے. وہ اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے جالب انداز اور سلیقہ مندی سے بصورتِ تحریر پیش کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے. یہی چیز اسے دوسروں سے ممتاز بناتی ہے. ان کی تحریریں سوچ کے بند کواڑوں کو کھولنے کا کام کرتی ہیں اس لیے میں سعید اختر ملک صاحب کی مزید کتابوں کا منتظر رہوں گا.
”تانبے کی زمین“، شفیق اختر حر کے منفرد کالموں کا دوسرا مجموعہ – محمد اکبر خان اکبر
کتاب چھپوانے کا سفر، ایک دلچسپ رُوداد – عاطف ملک
”سمندر گنگناتا ہے‘‘، ادبِ اطفال میں ایک منفرد اضافہ – محمد اکبر خان اکبر
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر