ایامِ گزشتہ کا تذکرہ کرنا، اپنی بکھری تلخ و شیریں یادوں کو سمیٹنا، انھیں دوری اعتبار سے ترتیب دینا اور پھر الفاظ و معانی کا روپ دے کر سپرد قلم کرنا جان جوکھم والا کام ہے. یہ خوبی و صلاحیت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی کہ وہ اپنے لمحات زیست کو دل نشین الفاظ کا جامہ پہنا کرعوام الناس کے سامنے رکھ دے. اپنی زندگی کے جوار بھاٹے، بحر حیات کے تلاطم کا تذکرہ کرنا جوئے شیر لانے سے کسی صورت کم نہیں. وہی شخص اس حقیقت کو جان سکتا ہے جس نے اس وادی پرخار میں قدم رکھا ہو اور اس سے گزرنے میں کامیابی بھی حاصل کی ہو.
انہی شخصیات میں سے ایک ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب ہیں. وہ جب قلم تھام لیتے ہیں تو الفاظ مودبانہ خود حاضر ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کا قلم قرطاس ابیض پر ایسے دوڑنے لگتا ہے جیسے سکندر مقدونی کا وفا شعار گھوڑا سلطنت پر سلطنت فتح کرتا گزر رہا ہو. ”فرشتے کی ایف آئی آر‘‘ کٹے زیادہ مدت تو نہیں گزری مگر فرشتے نے ”مشرق کا موتی حوروں کا مسکن‘‘ اور ”قوم قوس قزح‘‘ کا پراسرار جہاں بھی کھوج ڈالا. اتنا کچھ ضبطِ تحریر میں لانے کے باوجود فرشتے کی سرگزشت ہنوز تشنہ تکمیل رہی. مصنف کی یہ تصنیف ان کی آپ بیتی کے سلسلے کو مکمل کرنے کی سعی بلییغ ہے.
ڈاکٹر صاحب کے قلم میں بلا کی روانی جولانی اور دل آویزی ہے. وہ بلا کم و کاست منفرد پیرایہ اظہار اور الفاظ کے چناو کا سلیقہ خوب جانتے ہیں.
ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب کا اسلوبِ تحریر جاندار اور منفرد لب و لہجے والا ہے. اس کے ساتھ ساتھ وہ بر محل اشعار کا استعمال کرنا خوب جانتے ہیں ان اشعار کے استعمال سے ان کی نثر زور بیان اور اثر انگیزی میں کہیں آگے بڑھ جاتی ہے.
ڈاکٹر صاحب کی تحریر میں بے باکی کا عنصر واضح طور پر جھلکتا محسوس ہوتا ہے. ان کی منفرد خودنوشت کا پہلا باب ”سچ یا جھوٹ‘‘ اس امر کی کھلی گواہی ہے انھوں نے کسی لیت ولعل سے کام لیے بغیر ہی برادر کلاں کی عیاری کا پردہ چاک کیا ہے. کتاب کا پہلا باب ان واقعات کی تصدیقی شہادتیں پیش کرتا ہے جو ان کی خودنوشت، حصہ اول میں تحریر کیے گئے ہیں اور جن کے بارے میں بہت سے قارئین شکوک و شبہات کا شکار رہے ہیں.
اس باب میں انھوں نے اپنی پہلی خودنوشت میں تحریر کردہ ناقابل فراموش واقعات کے متعلق دس گواہیاں رقم فرمائی ہیں. ان کی سرگزشت کا یہ حصہ بھی لمحاتِ زیست کی بوقلموں کیفیات کا مرقع ہے جو مصنف کی شخصیت کے کئی رخ آشکارا کرتی ہے. ان کی اعلٰی ظرفی خوش مزاجی، نرم خوئی، برجستگی، نفاست پسندی، قادرالکلامی، خوش طبعی، حق گوئی و بے باکی افکار کو خیالات کی ہم آہنگی اس سر گزشت میں جابجا جھلکتی محسوس کی جاسکتی ہے.
ان کی تحریر روادواں اور کسی بھی قسم کی فلسفیانہ موشگافیوں کے بغیر ایک ایسا آئینہ ہے جو ہمارے معاشرتی رویوں کے تلخ حقائق ہمارے سامنے لاتی ہے. اس خودنوشت میں انسانی زندگی کی رنگا رنگی اور تنوع دیکھی جا سکتی ہے. وہ اپنے افکار و خیالات لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کرتے چلے جاتے ہیں. مصنف اپنی بیدار نگاہی اور خوش نظری سے نثر کو چار چاند لگا دیتے ہیں. ان کی کتابوں میں سچائی اور محبت کی فراوانی کا ایک سمندر موجزن ہے.
ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب نےاپنی آپ بیتی میں بہت سی معلومات کو انتہائی عرق ریزی اور روانی سے سمو دیا ہے. مصنف نے نہایت متحرک زندگی گزاری ہے اور بے پناہ مشکلات، دشواریوں اور مصائب و مسائل کے باوجود اعلٰی اقدار اور وسیع النظری اور اولوالعزمی سے ان کا مقابلہ کرتے ہوئے سرخروئی حاصل کی ہے.
یہ سرگزشت قارئین کو ایک ولولہ بخشنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ بھی راہِ زیست کی مشکلات کا پوری تندہی اور ذہانت سے مقابلہ کر سکیں، موقع پرست افراد اور ان کی سازشوں سے بچتے ہوئے اپنا مقصد و منتہا حاصل کر سکیں.
یہ آپ بیتی مصنف کی ژرف نگاہی اور عمیق النظری واضح کرتی ہے کہ وہ معاشرتی تضادات اور سماجی رویوں کی واضح تصویر کشی کے ماہر ہیں. ڈاکٹر صاحب نے ایک بھرپور زندگی بسر کی ہے. زمانے کے اتنے نشیب و فراز دیکھے ہیں کہ ان کی خودنوشت پڑھنے والا حیرت و استعجاب کے باعث انگشت بدنداں رہ جاتا ہے. وہ زمانے کے مدو جزر سے گزرے ہیں مگر کبھی اپنے اصولوں سے انحراف نہیں کیا. ان کی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی ہی ان کی ترقی کا زینہ بنی ہے اور انھوں نے اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کیا ہے.
ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب نے بے پناہ تکالیف اور مصائب دیکھے ہیں. اپنوں کے ہاتھوں ہی زخم کھائے مگر بذاتِ خود کبھی کسی کو زک نہیں پہنچائی، کسی کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے بلکہ ہمیشہ خلقِ خدا کو آسانیاں بہم پہنچانے اور حتی المقدور ان کی مدد کرے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں.
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
مصنف نے واقعات زیست قلمبند کرکے اُردو کی اہم صنفِ ادب، خودنوشت سوانح عمری کو چار چاند لگا دیے ہیں. اردو کی گنی چنی خودنوشتوں میں یہ ایک عمدہ ترین اضافہ ہے. ان کا اسلوب تحریر نثر کے اکثر حسن و جمال سے آراستہ و پیراستہ ہے. میری دانست میں وہ جس شگفتگی اور برجستگی سے حالات تحریر کرتے ہیں کہ قارئین پر ایک سحر طاری ہو جاتا ہے جو ان کی کتابوں میں پوری آب و تاب سے دیکھا جا سکتا ہے.
ان کی تحریر رواں بے ساختہ، تصنع سے مبرا اور سادگی کے باوجود ان کی علمیت کا اظہار کرتی معلوم ہوتی ہے. ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب کی کتابوں کا مطالعہ ان کی متانت، سنجیدگی اور ادبی مہارت کے نئے گوشے سامنے لاتا ہے. وہ عبارت کو سنوارنے پر خاص توجہ دیتے محسوس ہوتے ہیں. ان کی یہ کتاب احساس کے تاروں کو چھیڑنے اور ضمیر جھنجھوڑنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے.
اب جس کے جی میں آئے وہی روشی پائے
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا