حکایاتِ عثمانی – محمد اکبر خان اکبر

صدیوں پہلے شیخ سعدیؒ نے ”گلستان‘‘ اور ”بوستان‘‘ جیسی بلند پایہ تصانیف میں سبق آموز حکایات لکھ کر ناقہ بے زمام کو سوئے قطار کرنے کی کوشش کی. ان کی کتابوں کو شہرہ آفاق پذیرائی حاصل ہوئی اور دنیا بھر کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے. میں نے بہت سال قبل دونوں کتابوں کا مطالعہ کیا اور انہیں بے حد دلچسپ پایا. حقیقت ہے کہ ان کے سحر سے دسیوں برس گزرنے کے باوجود نہیں نکل سکا. اسی طرح مولانا رومؒ کی حکایات کا ترجمہ ایک مدت قبل پڑھنے کے باوجود آج تک اس کی حلاوت دل میں موجود پاتا ہوں.
آج کی زیرِ نظر کتاب ”حکایاتِ عثمانی‘‘ کے مصنف ملک محمد عثمان نے جہلم میں آنکھ کھولی. وہ مولانا رومؒ کے معتقدین اور مداحوں میں شامل ہیں. ترکی اور یورپ کی سیاحت بھی کر چکے ہیں. انھوں نے کتاب ”حکایاتِ عثمانی‘‘ تحریر کرکے تطہیر معاشرہ کی اس روایت کو آگے بڑھایا ہے جو سعدیؒ و رومیؒ کی تحریروں میں موجود ہے. ملک محمد عثمان نے یہ کتاب لکھ کر تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار کو سنوارنے کی بہترین کاوش کی ہے. وہ کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ:
”یہ سو حکایات جو نفسیاتی، معاشرتی، نظریاتی اور روحانی پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں، امید ہے کہ ہر عمر اور ہر استعداد کے حامل افراد کے لیے ایک بہترین تحفہ شمار ہوں گی. حکمت، مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے اور ان حکایات کا اس کھوئی ہوئی میراث کے ضمن ہی میں مطالعہ کرنا چاہیے.‘‘
ملک محمد عثمان نے نہایت سادگی اور دل نشین انداز میں نہ صرف ایک سو حکایات کو تحریر کیا ہے بلکہ ان کے ساتھ خوب صورت تصاویر شامل کرکے ان کی دل آویزی اور اثر پذیری میں بھی اضافہ کیا ہے. مصنف نے موجودہ زندگی کے روزمرہ معمولات، معاشرتی تضادات اور گہرے مشاہدات کو سبق آموز حکایات کی صورت میں پیش کیا ہے. ہر حکایت کے اختتام پر اشارہ یعنی حکایت میں پنہاں سبق کی جانب بھی راہنمائی کی گئی ہے. ان کی یہ کتاب ہے ہر سکول کی سطح پر پڑھائے جانے کے لائق ہے.
تعمیرِ ملک و ملت کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ نہ دی جائے. ہم تعلیم پر بحیثیت والدین اور اساتذہ توجہ تو ضرور دیتے ہیں البتہ تربیت کا فقدان عموماً ہر جگہ دکھائی دیتا ہے. اعلٰی قدروں پر مبنی ایک بہترین انسانی معاشرے کی تشکیل اس وقت ممکن نہیں جب تک نئی پود کی اعلٰی تربیت نہ کی جائے.
یہی بات علامہ اقبال نے کچھ اس طرح بیان کی ہے:

مقصد ہو اگر تربَیتِ لعلِ بدخشاں
بے سُود ہے بھٹکے ہُوئے خورشید کا پر تُو
دُنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مَدرسہ، کیا مدرسے والوں کی تگ و دَو!
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کُہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پَیرو!

ملک محمد عثمان کی یہ کتاب نہ صرف معنوی پر بلکہ صوری حسن سے بھی آراستہ ہے. ان کی کتاب میں فیبلز اور پیرابلز، ہر دو قسم کی حکایات موجود ہیں. کہیں وہ جانوروں کی زبانی اصلاحی پیغامات پیش کرتے نظر آتے ہیں، کہیں دو سبزیوں کی آویزش تحریر کرتے ہیں تو کہیں کیکر کے درخت کی نصیحت اور کہیں انسانی کرداروں کی صورت میں سبق اندوزی کا درس دیتے ہیں. اس کتاب میں شامل تمام حکایات پڑھنے کے لائق ہیں. ان کی اس کتاب میں مقصدیت کا گہرا رنگ پایا جاتا ہے. کتاب کے صفحات میں ذہنی بیداری اور تزکیہ نفس کا سمندر موجزن ہے.
ملک محمد عثمان نے ”دارالحکمت الخالدیہ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے جس کے تحت کئی اعلٰی تصانیف طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں.