”پہلی جھلک یورپ کی‘‘ – محمد عمران اسحاق

دیکھ لے اس چمن دہر کو دل بھر کے نظیرؔ
پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا
نظیرؔ اکبرآبادی

چند روز پہلے ”کتاب نامہ‘‘ کے مدیر، میرے عزیز دوست محترم ثاقب بٹ نے ایک خوب صورت اور دل چسپ سفر نامہ پر مشتمل کتاب ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘ ارسال کی جسے پڑھ کر یورپ کے چھ ممالک کی سیر سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا اور بہت سی نئی تاریخی باتوں کا علم ہوا۔
سفر نامہ کی روایت اور تاریخ، سفر سے جُڑی ہوئی ہے اور تحریر لکھنے والے کے اسلوب سے ہم وہی کچھ دیکھ سکتے ہیں جو سفرنامہ نگار ہمیں دکھائے گا۔ وہ جتنی سادہ بیانی اور روانی سے کام لے گا، اسی قدر قاری سفر کی لطافتوں سے محظوظ ہو سکیں گے اور اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں بھی بے حد محظوظ ہوا ہوں۔
اس کتاب کے مصنف نامور محقق، دانشور، معلم، افسانہ نویس، سفرنامہ نگار اور ”کتاب نامہ‘‘ کے مدیرِ منتظم حسنین نازشؔ دیدہء بینا رکھتے ہیں۔ جہانوں کے اندر نئے جہانوں کی کھوج لگانے اور ایک خاص نُقطہ نظر سے موتی چننے کے بعد ان کو لڑی میں پرو کر سفرنامہ بنا دینے کے ہنر سے شناسا بھی ہیں۔ علم و ادب سے تعلق رکھتے ہیں اور ساتھ ہی سیاحت کا مشغلہ اپنائے ہوئے ہیں جس کی بدولت دنیا کی سیر کرنے مگن رہتے ہیں اور اس وقت بھی امریکا میں موجود ہیں اور ہمیں ”امریکا ڈائری‘‘ سے مستفید کر رہے ہیں.
حسنین نازشؔ کے یورپ کے سفر نامے پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘، مثال پبلیشرز، فیصل آباد بہت اہتمام نے شائع کی ہے جو 263 صفحات پر مشتمل ہے۔ سرورق سمیت کتاب کی تزئین بہت عمدہ انداز میں کی گئی ہے۔ عمدہ معیار کا صفحہ استعمال کیا گیا ہے جس سے کتاب میں موجود لکھت میں مزید نکھار پیدا ہوگیا ہے۔
جناب حسنین نازشؔ یورپ کے مختلف ممالک میں گھومنے پھرنے کے لیے اپنے ایک دوست زاہد زمان کے ہمراہ نکلتے ہیں. وہ اپنے اس سفر نامے میں ان ممالک کے مشاہدات، واقعات اور تجربات کو تحریر میں لاتے ہیں، ساتھ ہی اس سفر کے دوران پیدا ہونے والی قلبی کیفیات واحساسات کوبھی سادہ اور آسان الفاظ میں بیان کرتے ہیں. گمان ہوتا ہے کہ قاری خود ان کے ساتھ گھوم کر وہ مناظر دیکھ رہا ہے جو مصنف زیرِ تحریر لاتا ہے۔ ان کی مزاجی کیفیت، قوتِ مشاہدہ اور اندازِ تحریر قاری کو بیٹھے بیٹھے یورپ کی سیر کروا دیتی ہے۔
سفر نامہ ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘ میں قاری جہاں نیدر لینڈز، جرمنی، آسٹریا، سوئٹزر لینڈ، فرانس اور بلجئیم میں موجود مشہور سیاحتی مقامات کی سیر سے لطف اندوز ہوتا ہے وہیں مصنف ان جگہوں کی تاریخی اہمیت سے بھی روشناس کرواتے ہیں جس سے بہت ہی کم لوگ واقف ہوتے ہیں. وہ سفر کے دوران اور ان ممالک میں پیش آنے والے واقعات، مختلف سیاحوں اور مقامی لوگوں سے ہونے والی ملاقاتیں اور وہاں مشاہدے میں آنے والی سیاحتی جگہوں کی تاریخی اہمیت کو دلچسپ اور دلفریب انداز میں پیش کرتے ہیں، جن میں ایمسٹرڈیم کی سائیکلنگ کا مشاہدہ، ہاسٹل کے چھوٹے سے کمرے میں کئی لوگوں کے ساتھ قیام اور دوست کے نیند میں خراٹے مزاحیہ انداز میں بیان کرتے ہیں. ایمسٹرڈیم کے بازارِ حسن میں رات کی رنگینیوں میں مگن سیاحوں کے عجیب و غریب حالات اور وہیں خوب صورت اور دل نشین ”اینا‘‘ سے ملاقات کا قصہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے. وہاں جنس کا عجائب گھر، پھولوں کی سب سے بڑی منڈی کی سیر، جنتی اور چکیوں والے گاؤں کا تذکرہ جو آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون دیتا ہے۔
کتاب میں جرمن شہر میونخ کے محل سرائے کی سیر کے ساتھ یہودیوں کے دشمن ہٹلر سے ملاقات بھی کروائی جاتی ہے، ہٹلر سے ملاقات پڑھتے ہوئے بہت سی معلومات میں اضافے ہوتا ہے، پھر مصنف فرانس پہنچ کر رومانوی دریائے سین کے کناروں پر محبت کے جذبات میں کھو جاتے ہیں. فتح کی محراب، لوور میوزیم کی تعمیر، تاریخ اور اس میں موجود حیرت انگیز فن پاروں کو خوب صورتی سے متعارف کرواتے ہیں. نپولین کے مزار پر جاکر ہمیں اس کی عشق کی داستان سے لے کر سپہ سالار اور پھر فرانس کا حکمران بننے تک کا پورا سفر دل چسپ حقائق کے ساتھ سناتے ہیں. بلجئیم میں پہنچ کر بین الاقوامی سیاحتی مرکز ”اٹومیم‘‘ کی سیر کروانے کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخ سے روشناس کرواتے ہیں. پھر آخر میں ”واٹر لُو کے میدان‘‘ میں لے جا کر نپولین کی آخری جنگ کروا دیتے ہیں اور نپولین کو قید کرواکر خود مصنف خوب صورت یادوں اور تحائف کے ساتھ وطن واپس لوٹ آتے ہیں۔ اس سارے سفر میں، اس کتاب کے ذریعے مَیں مصنف کا ہم سفر رہا ہوں. بلاشبہ یہ سب پڑھتے ہوئے قاری پر ایسا سحر طاری ہوتا ہے کہ کتاب کے مکمل ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔
کتاب میں شامل ڈاکٹر صبا جاوید، ڈاکٹر محمد امتیاز، پروفیسر محمد اکبر خان، مدیر ”کتاب نامہ‘‘ ثاقب محمود بٹ، نامور ادیب و شاعر نسیم سحراور ڈاکٹر مقصود جعفری کی معلوماتی اور تعارفی تحاریر نے اس سفرنامہ کو چار چاند لگا دیے ہیں.
حسنین نازشؔ کے اس سفرنامہ یورپ کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے مطالعہ سے قاری کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی اور وہ اس میں دلچسپی لیتے ہوئے ایک دو نشست میں ہی اسے آخر تک پڑھنے پر مجبور ہر جاتا ہے. اس کی بالخصوص وجہ مصنف کا اندازِ تحریر ہے کہ وہ قاری کو بوریت محسوس کروائے بغیر تمام شہروں کا احوال بہترین انداز میں بیان کرتے ہوئے کتاب مکمل کرلیتے ہیں. المختصر میں سفرنامہ نگار کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس سفرنامے کو بہتر انداز میں پیش کرنے کا بھرپور جتن کیا اور کامیاب بھی ہوئے۔ نفیس طرزِ تحریر سے مزین اس سفرنامہ کی زبان عام فہم ہے کہ ہر کوئی اس کو بآسانی پڑھ کر لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں علمی، ادبی اور معلوماتی لحاظ سے بھی یہ سفرنامہ ایک مکمل معلوماتی کتاب ہے جس کی اشاعت پر مصنف سمیت ناشر داد کے مستحق ہیں.
حسنین نازشؔ کا یہ سفرنامہ ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘ ضرور پڑھیے کیوں کہ:
”ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں