”ریاض نامہ‘‘، ممتاز کالم نگار، مضمون نویس اور سیاح، شیخ ریاض کی اولین تصنیف – محمد اکبر خان اکبر

یوں تو ”ریاض نامہ‘‘، شیخ ریاض کی اولین کتاب ہے مگر ان کے تحریری سفر کا آغاز کئی سال قبل ہو چکا تھا اور انھوں نے مختلف اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس پر نہایت معلوماتی اور اعلٰی مضامین لکھ کر اپنی تحریری صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا.
ان کی یہ کتاب ایک ایسی منفرد خودنوشت سوانح عمری ہے جس میں وہ اپنے ماضی کے اوراق تیزی سے پلٹتے دکھائی دیتے ہیں. انھوں نے اس کتاب میں موئے قلم کی جنبش سے نہایت اعلٰی نقاشی کی ہے. ان کی تحریر میں سادگی، روانی اور شفافیت ہے. ان کی خودنوشت ہر قسم کی پیچیدگی اور الجھاؤ سے مبرا ہے.
شیخ ریاض کی خودنوشت کا مطالعہ ان کی شخصی وضعداری، خوش مزاجی، سادگی اور بردباری سے قارئین کو آشنا کرواتا ہے. ان کی کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس میں کسی قسم کی بناوٹ، ریاکاری اور ملمع سازی موجود نہیں. جو کچھ اور جیسے پیش آیا، اسے نہایت سلیس زبان میں تحریر کیا گیا ہے. جب ایامِ زیست کے واقعات و لمحات ذہن کے دریچوں سے نکل کر یادوں کے کواڑوں پر دستک دینے لگیں تو ان کی دستک پر لبیک کہنے کا احسن ترین طریقہ یہی ہے کہ کہ انھیں الفاظ کی صورت دے کر قرطاس پر اتار لیا جائے. جو کچھ احاطہ تحریر میں آجاتا ہے وہ ایک طویل مدت کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے. اگر مصری فنِ تحریر سے آشنا نہ ہوتے تو آج سے چار ہزار سال قبل ان کے طرزِ معاشرت اور بودوباش کے بارے میں ہمیں اتنا علم نہیں ہوتا. یہ تحریر کی قوت ہی ہے کہ آج کا انسان ڈیڑھ ہزار سال قبل از مسیح کے مصر کے حالات، ڈیڑھ سو سال قبل کے مصر سے زیادہ جانتا ہے. شیخ ریاض کی یہ کتاب اپنی بکھری یادوں کو مجتمع کرنے کی بہترین کاوش ہے.
آج سے ستاون سال قبل، 1966ء میں، کوئٹہ سے زاہدان اور پھر وہاں سے عراق کے سفر کی مختصر روداد بھی ان کی خودنوشت کا حصہ ہے. کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ اس وقت کے کوئٹہ اور وہاں سے بذریعہ سڑک ایران کے سفر کا حال کچھ تفصیل سے لکھتے تاکہ ستاون سال قبل اس علاقے کی کیفیت بھی قارئین کے سامنے آ جاتی. مصنف نے ایران عراق کے مابین اپنے تجارتی پھیروں کا بھی مختصر تذکرہ لکھا ہے. ان کی خودنوشت کا ایک دلچسپ حصہ جرمن دوست فریڈی کی رفاقت کے واقعات اور یادوں کا احاطہ کرتا ہے، جس میں جرمنوں کے کچھ رسوم و رواج اور طرزِ زندگی کی جھلکیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں. شیخ ریاض ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے دیوارِ برلن سے تقسیم شدہ شہر بھی دیکھا اور پھر اس دیوار کے انہدام کا بھی مشاہدہ کیا.
انھوں نے لاہور اور شیخوپورہ کی سیاحت کو بھی اپنی خودنوشت کا حصہ بنایا ہے. ان کی اس خودنوشت میں یادوں کا ایک سمندر موجزن ہے جس کی لہریں کبھی ساحلوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس پلٹتی محسوس ہوتی ہیں اور کبھی ساحل کی ریت پر نقش و نگار بناتی نظر آتی ہیں.
اس سوانح عمری کا ایک اہم حصہ جرمنی میں اردو ادب کی ترویج و ارتقاء کی جھلکیاں پیش کرتا ہے جس میں ”اُردو انجمن برلن‘‘ کی کی کئی ادبی سرگرمیوں کی تفصیل ملتی ہے. شیخ صاحب نے یونان کے سفری تجربات کو اس کتاب میں سمو کر اس کے حسن میں مزید اضافہ کر دیا ہے.
شیخ صاحب کی کالم نویسی یقیناً لاجواب ہے اور بلاشک و شبہ ان کے کالم معلوماتی، دلچسپ اور عام فہم انداز میں لکھے گئے ہیں. مصنف نے جدید ترین سائنسی انکشافات اور اکتشافات کے بارے میں بھی کالم لکھے ہیں. شیخ صاحب ایک مدت سے کالم نگاری کر رہے ہیں اگر وہ اپنے کالموں کا ایک الگ مجموعہ ترتیب دیں تو بہت بہتر رہے گا.
کالم اور خودنوشت کا امتزاج ایک الگ سی چیز لگتی ہے بہرحال ان کالمز کی اس کتاب میں شمولیت سے یہ فائدہ ہوا کہ ان کے ایک اور ہنر سے قارئین کو آگاہی حاصل ہوئی. کتاب کی اشاعت معیاری اور دیدہ زیب ہے جس میں جابجا تصاویر کی موجودگی اس کی اہمیت کو دو چند کر دیتی ہے. اتنی اعلٰی طباعت پر ”پریس فار پیس فاونڈیشن‘‘ اور اس سے منسلک تمام افراد مبارک باد کے مستحق ہیں. ادارے نے نہایت کم عرصہ میں اعلٰی اور معیاری کتابوں کی اشاعت سے شعبہ طباعت میں اعلٰی مقام حاصل کیا ہے اور شیخ ریاض کی یادوں کے چراغوں کی روشنی ہم تک پہنچانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے.