عروج زیبؔ اُردو شاعری میں ایک نئی آواز اور نیا آہنگ لے کر وارد ہوئیں. ان کی شاعری میں عمومی طور پر جذبہ محبت، وفور عشق، شدت احساس کا غلبہ دکھائی دیتا ہے. وہ فطری طور پر حساس طبیعت کی حامل معلوم ہوتی ہیں. ان کی شاعری میں عصرِ حاضر کا ادراک موجود ہے. ایسا لگتا ہے کہ ان کا معاشرتی استفادہ اور شعور و آگہی اپنی پوری توانائی اور شدت کے ساتھ ان کی شاعری میں منعکس ہو رہا ہے.
زندگی ایک سہانا خواب بھی ہے
یہ سکوں بھی ہے اور عذاب بھی ہے
جس کو چاہت ملی ہے بن مانگے
اس کی قسمت میں اس طرح بھی ہے
شاعری کے بارے میں وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ”یہ بات اپنے تئیں بالکل درست ہے کہ شاعری بہت کٹھن اور خارزاروں پر چلنے کا نام ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شعر گوئی ایک خداداد صلاحیت ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مطالعہ اور فنی ریاضت سے دن بدن نکھرتی چلی جاتی ہے. جیسے جیسے انسان کے اندر پختگی اور شعوری سطح بلند ہوتی ہے، ویسے ویسے شعری ریاضت نکھر جاتی ہے. میں نے اپنے جذبات، احساسات و محسوسات کو لفظوں میں پرونے کی کوشش کی ہے اور ہر دن سیکھنے کی خواہش بڑھتی جاتی ہے.‘‘
عروج زیبؔ کی غزل نگاری کا احاطہ کرنا صرف آرزوئے وصل سے تو ممکن نہیں. ان کی غزل گوئی کی انفرادیت سمجھنے کے لیے ان کے پورے شعری اثاثے کا بنظر غائر جائزہ لینا پڑے گا. بہرحال اس مجموعہ کلام سے مترشح ہو رہا ہے کہ ان کی غزل میں عمومی طور پر الفاظ کی نشست و برخاست، خیال کی عظمت، تخیل کی کار فرمائی، فکر کی بلندی بڑی مہارت سے برتی گئی ہے.
محبت تمہاری یہ کیا کر گئی
کہ رسوائی دامن میں بھی بھر گئی
میں بدنام ہوں تیرے کوچے میں یوں
کہ خوشبو محبت کی گھر کر گئی
محبت کے معنی سے واقف ہے کون
ہوس میرے دل میں برابر گئی
خطا ہو گئی جو تمہیں چاہا ہے
وفا جیسے دنیا سے اٹھ کر گئی
عروج زیبؔ کی غزلیات میں کلاسیکی روایت کا احترام اور قدیم رنگ تغزل عام طور پر دکھائی دیتا ہے. انہوں نے کلاسیکی مضامین کو بھی اس قدر جامع الفاظ استعمال کرتے ہوئے پیش کیا ہے کہ وہ جدیدیت کے رنگ میں رنگے دکھائی دیتے ہیں.
چاہت کے افسانے سارے جھوٹے ہیں
دل کے یہ نذرانے سارے جھوٹے ہیں
کون کسی پہ مرتا ہے اے جانِ جاں
اب یہ حیلے بہانے سارے جھوٹے ہیں
ان کی غزلوں میں وسعت، تنوع، رنگا رنگی، ہمہ گیری واقعیت اور اصلیت جیسے عناصر بھی پائے جاتے ہیں. ان کی شاعری میں بلندی اور رعنائی موجود ہے. جذباتیت کی فراوانی کے بجائے عقل و خرد کی کار فرمائی زیادہ دکھائی دیتی ہے.
اپنے لیے تو جینا ہے
موج نہ کوئی اور دریا ہے
سوچنے سے منزل نہیں ملتی
اپنے بڑوں کا یہ کہنا ہے
دیگر شعراء کی طرح ان کے یہاں رجائیت ضرور موجود ہے جو کئی مقامات پر ان کے شعروں سے چھلکتی دکھائی دیتی ہے. عروج زیبؔ کی غزلوں میں نغمگی، غنائیت اور موسیقیت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے. غزل کسی بھی شاعر کے ذاتی محسوسات، جذبات، خیالات اور ارضی مشاہدات کی عکاسی کرتی ہے. ان کی غزل میں اسلوب اور فنی مہارت دکھائی دیتی ہے اس کے ساتھ ساتھ کرب، ہجر و غم رنج و الم جیسی کیفیات بھی سوز و گداز دلاویزی اور رعنائی کے ساتھ جلوہ فگن ہیں.
”آرزوئے وصل‘‘ میں عروج زیبؔ کی شاعری کا جو رنگ حاوی اور غالب دکھائی دیتا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ منظر نگاری، تصویر کاری اور جزئیات نگاری پر دسترس رکھتی ہیں. وہ اس طرح ایک ایک شے کو بیان کرتی ہیں کہ منظر نگاہوں میں پھرنے لگتا ہے. اس کے ساتھ ساتھ ان کے الفاظ میں ایسی تاثیر ہے کہ پڑھنے والے پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے گو کہ انہوں نے اپنی غزلوں میں روایتی انداز اختیار کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں جدت طرازی بھی دکھائی دیتی ہے. آرزوئے وصل میں شامل اشعار انسانی رشتوں کی حرمت، احترام اور ان کے مابین تعلق کو بیان کرتے ہیں. انہوں نے اپنی شاعری میں تراکیب کا خوب استعمال کیا ہے جن سے ندرت اور تازگی عمومی طور پر واضح ہوتی ہے. ان کی شاعری رنگ و آہنگ کے ساتھ ساتھ گہری معنویت بھی رکھتی ہے.
تمہاری راہوں میں سجدے کیے ہیں آنکھوں نے
سزا ملی ہمیں کیسی یہ دل لگانے کی
ہمارے آنسو ٹپکتے ہیں سوچ کر یہ بات
نہیں ہے کوئی حقیقت کسی فسانے کی
مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عروج زیبؔ کی شاعری غمِ دوراں اور غمِ جاناں کا ایک انوکھا امتزاج ہے جس میں ان کی فکری بالیدگی اور خیال کی رنگینی کے ساتھ ساتھ سنجیدگی اور پختگی سے اپنی فکر فکر و خیال کا اظہار دکھائی دیتا ہے جو کسی بھی قسم کے ابہام یا الجھاؤ سے پاک ہے. ان کے لہجے کی انفرادیت نے اس مجموعہ کلام کو اور زیادہ دلکش بنا دیا ہے. ان کی بیشتر غزلیں شعریت اور رنگ تغزل سے سجی ہوئی ہیں جس سے زندگی کی دل آویزی، دلکشی اور دیگر زاویے قارئین کی فکر کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں. یہ مجموعہ کلام شگفتگی اور سادگی کا ایک خوش نما گلدستہ ہے.
وقت تھم جائے تو قرارآئے
اپنے گلشن میں بھی بہار آئے
ہوش رہتا ہے اس کے سامنے کب
عاجزی آئے انکسار آئے