مدت ہوئی کہ ایک کتاب ”خط انشاء جی کے‘‘ کے شروع میں نامہ نگاری کے حوالے سے چند سطور نظر سے گزریں جو آج تک حافظے میں محفوظ ہیں. انہی الفاظ سے اپنی تحریر کا آغاز کرنا چاہوں گا. مولف خط انشاء جی کے لکھتے ہیں کہ:
”مکتوب نویسی شخصیاتِ انسانی کی بوقلمونی کیفیات کے اظہار کی ایک محیرالعقول اختراع ہے.‘‘
ایک بار ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو تحقیقی کام کرتے ہوئے مصر کے صحرا میں مٹی کے چپٹے چپٹے تعویذ نما ٹکڑے ملے جن پر قدیم مصری خط میں تحریریں تھیں اور جنہیں لکھنے کے بعد آگ میں پکایا گیا تھا. محققین نے ان تحاریر کو ڈی سائفر کیا تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ مصر اور شام کے بادشاہوں کے مابین لکھے جانے والے خطوط تھے جو غالباً اب تک دریافت ہونے والے سب سے قدیم خطوط ہیں. ان خطوط کی دریافت سے ہمیں معلوم ہوا کہ آج سے چار ہزار سال قبل بھی دنیا خطوط نویسی سے آشنا تھی. اس دور میں دو ممالک کے مابین پائی جانے والے تجارتی اور دیگر تعلقات کا علم ہوا. رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے تحریر کردہ خطوط مبارک آج تک محفوظ چلے آتے ہیں. اسی طرح خلفائے راشدین رض کے لکھے ہوئے خطوط بھی تاریخ کا اہم حوالہ ہیں. اُردو ادب میں مرزا غالب کی خطوط نویسی بے مثل ہے، جس کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا. فی زمانہ جدید ترین ذرائع مواصلات کی موجودگی کے سبب خط لکھنے کا رواج تو تقریباً ختم ہو چکا ہے البتہ مکتوب نویسی کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے.
زیرِ تبصرہ کتاب میں رائے فصیح اللہ جرال صاحب کے خطوط جمع کر کے پیش کیے گئے ہیں. کلیم اللہ صاحب قابلِ رشک ادیب اور منفرد تخلیق کار تھے جن کا ادبی دنیا میں ایک اپنا مقام ہے. فاضل مولف نے مکاتیبِ کلیم اللہ خان کا مجموعہ مرتب کر کے نہایت اہم ادبی کارنامہ سر انجام دیا ہے. راجہ کلیم اللہ خان اپنے زمانے کے بے مثال شاعر، سفرنامہ نگار اور افسانہ نویس تھے. ان کی کتابوں میں مجموعہ کلام گلدستہ، خود نوشت سوانح حیات، ریت پر قدموں کے نشاں، سفرنامہ حج، تذکرہ بے مثل راجگان راجور اور تذکرہ بے مثل تاریخ راجگان راجور وغیرہ شامل ہیں. فصیح اللہ جرال نے اس کتاب میں ان کے 17 خطوط شامل کر کے انہیں ابدی طور پر محفوظ کر دیا ہے. اس مختصر کتاب کی ادبی اہمیت بہت زیادہ ہے. مصنف نے اس کتاب میں صرف راجہ کلیم اللہ خان جیسی اہم ادبی شخصیت کے خطوط ہی جمع نہیں کیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کا تعارف، ان کی کتابوں کا مختصر تعارف اور تمام خطوط کے حواشی بھی شامل کر دیے ہیں جس سے اس کتاب کی معنویت اور اہمیت میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے. کلیم اللہ خان صاحب نے جس قدر خطوط بھی رائے فصیح اللہ جرال کو لکھے انہوں نے اسے اس کتاب میں شامل کر دیا ہے.
کلیم اللہ صاحب کے اسلوبِ تحریر میں سادگی اور روانی ہے. سادہ پر وقار انداز اور نہایت محبت بھرے الفاظ میں انھوں نے مولف کتاب ہذا کو مخاطب کیا ہے. کیا ہی اچھا ہو کہ اگر کلیم اللہ خان کے دیگر مشاہیر اور شخصیات کو لکھے گئے خطوط بھی اسی نہج پر جمع اور مدون کر کے شائع کر دیے جائیں. میرے خیال میں رائے فصیح اللہ جرال کو اس بارے میں ضرور کام کرنا چاہیے. خطوط ادب کا حصہ ہیں یا نہیں اس بحث سے قطع نظر یہ کہنا یقینی طور پر درست ہوگا کہ ان خطوط کی اشاعت سے اُردو ادب کی ثروت مندی میں مزید اضافہ ہوا ہے.
