یہ مختصر مگر جامع ناول رحمٰن عباس صاحب کے قلم کی تخلیق ہے۔ رحمٰن عباس بھارت کے رہنے والے عظیم ادیب اور ناول نگار ہیں۔ آپ نے بہت سے ناول لکھے ہیں اور مزید بھی لکھ رہے ہیں۔ ان دِنوں آپ کا شاہکار ناول ”ایک طرح کا پاگل پن‘‘ اردو ادب سے تعلق رکھنے والے قارئین کے مطالعہ کی زینت بنا ہے۔
میرا رحمٰن عباس سے پہلا تعارف ان کے ناول ”خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘‘ سے ہوا. یہ ناول مختصر ہے اور ریختہ ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ ناول کا مرکزی کردار عبدالسلام ہے جو پیشہ کے اعتبار سے ایک سکول ٹیچر ہے۔ عبدالسلام شک و شبہ میں مبتلا رہنے والا انسان ہے جو مختلف سوال اٹھاتا ہے اور ان کے جواب کی تلاش میں پرگھٹن معاشرے میں نکلا ہوا ہے۔
جس طرح ایک تشکیکی ذہن جو سوال اٹھاتا ہے وہی سوال عبدالسلام کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اکثر خالق اور اس کے بندوں پر تنقید کرتا ہے لیکن بعد میں خدا سے معافی کا طلبگار بھی ہوتا ہے۔ وہ انسانوں کی دہری شخصیت کا سخت ناقد ہے اور اس تضاد کو برداشت نہیں کر پاتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ معاشرے میں موجود ہر انسان کی شخصیت دوہرے معیار پر مشتمل ہے اور اس میں ایک واضح ابہام پایا جاتا ہے جو سراسر خلافِ فطرت ہے۔
اس ناول میں راوی کے ہاتھ عبدالسلام کی لکھی کچھ ڈائریاں آجاتی ہے جس کو وہ پڑھتا ہے اور قارئین تک پہنچاتا ہے۔ عبدالسلام کے کردار میں جو بے چینی اور بے قراری پائی جاتی ہے اس کا راز مصنف ناول کے آخر میں واضح طور بیان کر دیتا ہے۔ میرے سمجھنے میں یہ بالکل درست ہے کہ آخر میں مصنف عبدالسلام کی اضطرابی شخصیت کی جو توضیح پیش کرتا ہے وہ اس سے بہتر نہیں ہو سکتی تھی جو اس نے بیان کی ہے۔
یہ ایک غیر روایتی ناول ہے۔ مصنف اس کا کھل کر اظہار بھی کرتا ہے۔ ناول کا کردار عبدالسلام کافی پُر اثر ہے جو پڑھتے ہوئے قاری کے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کردار ہمیں زندگی کی مختلف پرتوں سے روشناس کرتا ہے۔
عبدالسلام کا کردار ہر اس انسان کی ترجمانی ہے، جو عقل و شعور رکھتا ہے. جس کے ذہن میں مختلف سوال اٹھتے ہیں اور معاشرہ کی جانب سے ان سوالوں کے جواب دینے کے بجائے اس کو خاموش کروا دیا جاتا ہے. موجودہ دور میں کسی کے مذہب پر سوال اٹھانا، انگلی اٹھانے کے مترادف ہو تو عبدالسلام جیسے خود کلام کردار ہی جنم لیتے ہیں. وہ مسجد، مندر، گرجا سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں. رحمٰن عباس لکھتے ہیں کہ:
”ہمیں زندہ رہنے کا کام اس کی مشق کے بغیر دیا گیا ہے.‘‘
اس فقرے کو صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے زندگی کے ہر رنگ کو محسوس کیا ہو. رحمٰن عباس صاحب کے اس ناول کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا کہ ہم میں کہیں نا کہیں کوئی عبدالسلام ضرور موجود ہوتا ہے جو خدا اور اپنی ذات سے نوک جھوک کرکے دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے. جب اُسے اپنے سوالوں کے جواب نہ ملیں تو وہ کہتا ہے کہ:
”مذہب لاٹھی ہے، بینائی نہیں.‘‘
اس ناول میں مزاح کا عنصر واضح اور خوب ہے۔ ذرا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
”داستانِ عشق تحریر کرنے کا ارادہ اس نے زمانہ طالب علمی کے دنوں میں کیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی معشوقہ شہلا نے اسے یہ مشورہ دیا تھا۔ ایک روز شہلا نے اس سے کہا: ”تم جو اس والہانہ دیوانگی کے ساتھ کالج کی عقب جھاڑیوں میں پرندوں کے گھونسلے دکھانے کے بہانے پیار کرنے لاتے ہو کیا اس دیوانگی کو دنیا پر آشکار نہں کرو گے؟ کیا ہمارا یہ پاگل پن مشہور ہو کر تاریخ میں زندہ نہیں رہ سکتا؟ تب فرطِ جذبات میں شہلا کی لپ سٹک کو جیب میں سے رومال نکال کر صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔ ہماری محبت دورِ حاضر کی سب سے یادگار روداد ہوگی جسے میں خود تحریر کروں گا۔ جملہ ادا کرتے ہوئے اس نے رومال پر لپ سٹک کی سرخی دیکھنے کہ لیے آنکھیں مرکوز کیں تو وہ حیران و ششدر رہ گیا۔ غلطی سے رومال کے بجائے عجلت میں وہ والد صاحب کی ٹوپی اٹھا لایا تھا۔ اب اس ٹوپی کو دوبارہ گھر لے جانا مناسب نہ تھا۔ اس نے سوچا کیوں نہ محبت کی نشانی کے طور پر ٹوپی کو وہیں جھاڑیوں کے سپرد کر دے.‘‘
انسان کے اندر موجود پراسرار گہرایوں سے متعلق مصنف لکھتے ہیں کہ:
”محبت نہ ہوتو آدمی دل کے پراسرار کنوئیں میں گر کر مرجائے گا.‘‘
ناول کی پوری کہانی کا انجام عین توقع کے مطابق ہوا۔ کردار جس تناؤ اور اضطراب کی کیفیت سے گزر رہا تھا اس کا انجام اس کے علاوہ نظر نہ آتا تھا۔عبدالسلام حقیقت سے جڑا کردار ہے۔ ہم اس کو اپنے آس پاس یا خود اپنی ذات میں ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ایک منفرد ناول، پڑھتے ہوئے کہیں طوالت کا احساس نہیں ہوا اور نا ہی روائتی ناولز کی طرح اس میں کئی کردار موجود تھے جن کو کبھی کبھی یاد رکھنا بھی مشکل ہو جایا کرتا ہے.
وقت ملے تو ضرور پڑھیں.
