ممتاز عالمِ دین، مصنف، مقرر اور مفکر مولانا وحید الدین خان مرحوم کی منفرد تصنیف، ”رازِ حیات“ – محمد عمران اسحاق

”رازِ حیات“ مولانا وحید الدین خاں مرحوم کی تصنیف ہے جس میں آپ نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اِسے بہترین انداز میں گزارنے کے وہ راز بتائے ہیں جو کسی بھی انسان کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ وہ راز، جن پر مولانا صاحب نے تفصیل سے لکھا ہے، مندرجہ ذیل ہیں:
1. مقصدیت
2. قدرت کا سبق
3. کردار
4. حقیقت پسندی
5. امکانات
6. حکمت
7. نفع بخش
8. محنت
9. منصوبہ بندی
10. استقلال
11. برداشت
12. حوصلہ مندی
13. قربانی
14. دانش مندی
15. امتیاز
16. اتحاد
17. بے غرضی
18. اعراض
19. اعتراف

مولانا وحید الدین خاں مرحوم نے زیرِ تبصرہ کتاب میں ان تمام موضوعات پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے یہ راز نہ تو روایتی طور پر نصیحتوں پر مشتمل ہیں اور نہ جدید طرز کی شان و شوکت اور نمائش کا اظہار ہیں بلکہ یہ اپنی حقیقت میں قارئین کے دل ودماغ پر یاددہانی کی ہلکی سی دستک ہے. یہ دستک اندھے اشتعال اور مذہبی و گروہی جذبات کے خلاف خبردار کرتی ہے. اس کے ساتھ ہی دانش مند ذہن اور ضمیر کے لیے اچھی خبر پہنچانے کا ذریعہ بھی ہے۔
اس کتاب میں سے چند راز آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں:
پہلا راز ”مقصدیت‘‘ ہے. زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے سامنے ایک طے شدہ مقصد ہو جس کی سچائی پر اس کا ذہن مطمئن ہو اور جس کے حاصل کرنے میں اس کا ضمیر پوری طرح اس کا ساتھ دے رہا ہو۔ یہی مقصد انسان کو جانوروں سے الگ کرتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ قوم کے افراد کے اندر مقصد کا شعور پیدا کرنا، ان کے اندر سب کچھ پیدا کرنا ہے۔ مقصد آدمی کی چھپی ہوئی قوتوں کو جگا دیتا ہے جو انسان کو نیا انسان بنا دیتی ہیں۔
دوسرا راز ”قدرت کا سبق‘‘ ہے، انگریزی کا مقولہ ہے کہ ہم دیتے ہیں تب ہی ہم پاتے ہیں!
“In giving that we receive”
یہی حال اس کائنات کی ہر چیز کا ہے۔ یہاں موجود ہر چیز دوسروں کو کچھ نہ کچھ دینے اور نفع پہنچانے میں مصروف ہے۔ ان میں سورج ہو، دریا ہوں، پہاڑ ہوں، ہوا ہو، الغرض ہر چیز دوسروں کو نفع پہنچانے میں مصروف ہے۔ اس کائنات کا دین نفع بخشی ہے نہ کہ حقوق طلبی۔ اس دنیا میں صرف ایک ہی مخلوق ہے جو دینے کے بجائے لینا چاہتی ہے اور وہ انسان ہے۔ انسان یک طرفہ طور پر دوسروں کو لوٹتا ہے، وہ دوسروں کو دیئے بغیر ان سے لینا چاہتا ہے۔ وہ نفع پہنچانے کے بجائے نفع خور بننا چاہتا ہے۔
تیسرا راز ”کردار‘‘ ہے. قوم کی حالت کا انحصار ہمیشہ فرد کی حالت پر ہوتا ہے۔ فرد کے بننے سے قوم بنتی ہے اور افراد کے بگڑنے سے قوم بگڑ جاتی ہے۔ قوم کا معاملہ وہی ہے جو مشین کا ہے۔ مشین اسی وقت صحیح کام کرتی ہے جب تک اس کے پرزے صحیح ہوں ۔اسی طرح قوم اس وقت درست رہتی ہے جب کہ اس کے افراد اپنی جگہ پر درست کام کر رہے ہوں۔ مشین بنانا یہ ہے کہ پرزے بنائے جائیں۔ اسی طرح قوم بنانا یہ ہے کہ افراد بنائے جائیں۔ فرد کی اصلاح کے بغیر قوم کی اصلاح اسی طرح ناممکن ہے جس طرح پرزے تیار کیے بغیر مشین کھڑی کرنا۔
زندگی ایک امتحان ہے۔ یہ اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور اسی حقیقت کو سمجھنے میں ہماری تمام کامیابیوں کا راز چھپا ہوا ہے، خواہ وہ دنیا کی کامیابی ہو یا آخرت کی کامیابی۔
آخرت کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو دنیا میں جو کچھ ملا ہوا ہے وہ بطور آزمائش ہے نہ کہ بطور استحقاق۔ آدمی کو چاہیے کہ اس کو وہ اپنی ذاتی چیز نہ سمجھے بلکہ اس کو خدا کی چیز سمجھے۔ یہ چیزیں صرف اس وقت تک آدمی کے قبضہ میں ہیں جب تک اس کی مدت امتحان پوری نہ ہو۔ مدت پوری ہوتے ہی سب کچھ اس سے چھین لیا جائے گا۔ اس کے بعد آدمی کے پاس جو کچھ بچے گا وہ صرف اس کے اپنے اعمال ہوں گے نہ کہ وہ ساز وسامان جن کے درمیان آج وہ اپنے آپ کو پا تا ہے۔ دنیا کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جس طرح ایک شخص کو آزادی حاصل ہے اس طرح یہاں دوسرے شخص کو بھی پوری آزادی حاصل ہے۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے یہ دنیا اس چیز کا ایک میدان بن گئی ہے جس کو مقابلہ (Competition) کہا جا تا ہے۔ یہاں ہر آدمی آزاد ہے اس لیے یہاں ہر ایک شخص اور دوسرے شخص یا ہر ایک قوم اور دوسری قوم کے درمیان کھلا مقابلہ جاری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں کامیابی، دوسروں کے بالمقابل اپنے آپ کو کامیاب بنانے کا نام ہے. یہاں وہی شخص جیتتا ہے جو زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے بازی لے جائے. یہاں اس شخص کو ملتا ہے جو دوسروں سے آگے بڑھ کر لے لینے کی ہمت کرسکے۔ ہر آدمی جو کچھ کرتا ہے اپنے فائدے کے لیے کرتا ہے- اپنا فائدہ انسان کا سب سے بڑا معبود ہے- آدمی اگر معتدل حالت میں ہو تو وہ کبهی جان بوجھ کر ایسی کارروائی نہیں کرے گا جو اس کو خود اپنے نقصان کی طرف لے جانے والی ہو- مگر غصہ اور انتقام وہ چیزیں ہیں جو آدمی کو اندھا کر دیتی ہیں- وہ دوسرے کی ضد میں ایسی کارروائیاں کرنے لگتا ہے جس کا نقصان بالآخر خود اسی کو اٹھانا پڑے- ایسی ہر کارروائی یقینی طور پر پاگل پن ہے- معروف پاگل اگر طبی پاگل ہوتے ہیں تو ایسے لوگ نفسیاتی پاگل-
اپنے کتب بینی کے مشغلے کو پورا کرنے کے لیے میں نے بہت سی کتابیں پڑھیں مگر میں نے اتنی جامع، سبق آموز اور خوب صورت کتاب نہیں پڑھی۔ بے شک اس کتاب میں زندگی جینے کے گُر چُھپے ہوئے ہیں ۔ میں یہ کتاب اپنے ہر دوست کو تجویز کرتا ہوں۔ قارئین کرام، اگر آپ نے اب تک اس کا مطالعہ نہیں کیا تو ضرور کیجیے۔ ایک بات سمجھ لیں کہ عملی زندگی کی پیچیدگیاں سمجھنے کے لیے یہ کتاب انتہائی مفید ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں