ممتاز افسانہ نویس اور ناول نگار، رحمٰن عباس کا شاہکار ناول ”روحزن“ – محمد عمران اسحاق

اس وقت زیرِ تبصرہ کتاب دراصل ”روحزن“ ہندوستان کے معروف ناول نگار رحمٰن عباس کا شاہکار ناول ہے۔ رحمٰن کو اس ناول پر بھارت کا سب سے اہم سرکاری انعام ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ مل چکا ہے۔ رحمٰن عباس اردو دنیا کے ان چھ خوش نصیب ادیبوں میں سے ہیں جنھیں 2020ء میں ریختہ ڈاٹ کام پر سب سے زیادہ پڑھا گیا۔ میں نے یہ ناول پڑھتے ہوئے گوپی چند نارنگ کے اس فقرے پر مکمل عمل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ:
”اس ناول میں گھنا پن ہے اور میں نے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا ہے۔“
ناول پڑھنے کے بعد جو مُجھے محسوس ہوا، وہ یہ ہے کہ اگر مصنف کو دور حاضر کا منٹو کہیں تو بے جا نہ ہوگا. اس کتاب کو پڑھتے ہوئے جو فکری گہرائی اور معاشرتی مشاہدہ سامنے آتا ہے وہ صرف منٹو کی تحریروں میں ہی ملتا ہے. موجودہ دور کے ادیب اس خوبی سے دور ہیں یا پھر وہ لکھتے ہوئے گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ممبئی کو فلموں میں کئی بار دیکھا ہے مگر اس ناول میں ممبئی کو پڑھ کر فلموں سے بھی زیادہ لطف آیا اور ساتھ میں اس کی کچھ تحریرں ممبئی کی بولی میں پڑھ کر لطف دوبالا ہوگیا۔ رحمٰن عباس قاری کو اپنی تحریر کے سحر میں جکڑنے اور اس کو متجسس کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں. پورے ناول میں ایک سسپنس نمایاں ہے جو آخر تک برقرار رہتا ہے۔ ”روحزن“ ایک پھرپور اور بلاشک و شبہ ایک بڑا ناول ہے جو قاری کو آخر تک نظریں جمانے پر مجبور رکھتا ہے۔
ناول کے آخر میں ایک نوٹ کے ذریعے رحمنٰ عباس اس کتاب کے نام کی وضاحت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”روح اور حزن کی آواز نیز ان الفاظ کے معنی، لفظ ”روحزن“ کی تشکیل کے وقت میرے ذہن میں تھے لیکن اس لفظ کو روح اور حزن کا مرکب نہ سمجھا جائے۔ روحزن بطور سالم لفظ ایک ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی صورت حال کو پیش کرتا ہے۔“
ناول ان کیفیتوں کو سامنے رکھ کر بننے والے ایک نئے لفظ کو صورت عطا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس نئے لفظ کی نسبت سے مصنف نے ایک ایسا ناول تخلیق کیا ہے جو بیک وقت بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔
اس ناول میں ممبئی کی مزے دار بولی (زبان) جھلکنے کے ساتھ ساتھ انسانی خواہشات، جنسی تعلقات، شدت پسندی، دہشت گردی، شیطانی مذہب کی بنیاد، ملحدین کا نظریہ، ممبئی شہر کی تہذیب و ثقافت اور رہن سہن، ممبئی کے لوگوں کی سمندری طوفان سے متاثرہ زندگی، مرکزی اور مضبوط کردار اسرار کی لازوال داستانِ محبت، اسرار کی نفسانی خواہشات میں شریکِ جرم مس جمیلہ کی تنہائی کا دکھ اور طوائف شانتی کے ساتھ اس کے اپنوں کی بے رُخی، خوب صورت انداز میں پڑھنے والے کے ذہن کی سکرین پر فلم کی طرح نمودار ہوتی نظر آتی ہے۔
ناول کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا ہے. ”اسرار اور حنا کی زندگی کا وہ آخری دن تھا.“ مکمل ناول فلیش بیک تکنیک میں اس بکھری ہوئی کہانی کو بیان کرتاہے اور پھر آخر میں یہی فقرہ اس ناول کا اختتام ہے جو بہت سے تاثرات قاری پر چھوڑ جاتا ہے۔
رحمٰن عباس انسانی خواہشات کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
”خواہش ہر مٹی میں زندہ ہوتی ہے اور خواہش کا کوئی موسم نہیں ہوتا۔ خواہش بیدار ہوتی ہو تو وہ اونچی سے اونچی دیوار عبور کر سکتی ہے۔ خواہش آدم کی مٹی کا کلیدی عنصر ہے۔ خواہش فطرتاً موقع پرست ہے اور اس کام میں وہ پردۂ نفس کو بھی شکست دیتی ہے۔ خواہش کا زہر بہت طاقت ور ہوتا ہے۔ وہ آنکھوں میں حدت کو ٹھنڈک کی صورت پیش کرتا ہے. جلد کی بے تابی کو ایک کیف پرور موسیقی میں بدل دیتا ہے۔ دل ساکت ہوجاتا ہے اور ذہن پر پردۂ غفلت چھا جاتا ہے۔ ذات کے کمرے میں نیم اندھیرا ہوجاتا ہے.“
مصنف شیطانی مذہب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شیطان پرست لوگ شیطان کو معصوم اور نجات دہندہ مانتے ہیں اور اس مذہب کے پرچار کے لیے اس کی بنیاد رکھنے والے Anton Szandor LaVey نے مختلف کتابیں بھی لکھیں ہیں. اسی طرح Atheist کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ لوگ شیطان پرستی کو مذہب نہیں بلکہ ایک نظریہ مانتے ہیں جو ان کی سوچ پر حاوی ہے۔ ان مذاہب کے پیروکار کس طرح معصوم مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے بہکا کر اپنے مذہب کی طرف راغب کرتے ہیں، یہ سب تفصیل سے لکھا گیا ہے جو قابلِ ذکر ہے۔
علاوہ ازیں سب سے خاص بات جو میں نے اس ناول میں محسوس کی وہ یہ ہے کہ قاری پڑھتے ہوئے بالکل بھی بور نہیں ہوتا اور شروع سے لے کر آخر تک اس پر نظریں جمائے رکھتا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں