میر تقی میرؔ شاعری کے بادشاہ تھے ان کا یہ شعر ان کے اعلیٰ مقام کی عکاسی کرتا ہے:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
اَفسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
ان کا ایک اور زور دار شعر ہے
نہیں ملتا سخن اپنا کسی سے
ہماری گفتگو کا ڈھب جدا ہے
اور پھر خود ہی اپنی قابلیت کا یوں اظہار کرتے ہیں
میرؔ دریا ہے، سُنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے، طبیعت کی روانی اُس کی
انھوں نے یہ بھی کہا تھا اور سچ کہا تھا کہ:
گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے
اور اسکی تصدیق اُستاد غالبؔ نے خود یوں کی تھی
ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میںکوئی میرؔ بھی تھا
دیکھیے شاعری کے شوق نے مجھے کچھ اپنے طے شدہ راستہ سے بہکا دیا۔ دراصل میں دو نہایت اعلیٰ ہمہ گیر شخصیات اور ان کی کتب پر تبصرہ کرنا چاہ رہا تھا۔ دو بالکل متضاد شخصیات ہیں مگر دونوں نے نہایت قابل تحسین کام انجام دیئے ہیں اور تاریخ میں اپنے نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئےلکھ دیئے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اور نہایت اہم سیاسی کتاب اور اس کے مصنف پر بھی کچھ لکھوں گا۔
(1) پہلی مشہور، ہمہ گیر شخصیت، عزیز و محترم دوست سراج الدین عزیز ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے بینکر ہیں یعنی اَربوں کھربوں میں کھیلتے ہیں لیکن خود کے پاس کچھ زیادہ اثاثہ نہیں رکھا۔ سراج بھائی ایک اعلیٰ بینکر ہیں اور اپنے پیشے کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ چین، ہانگ کانگ، انگلستان، نائیجیریا اور متحدہ امارات میں مختلف اداروں سے اعلیٰ عہدوں پر وابستہ رہے ہیں۔ آجکل ایک نجی بینک کے پریذیڈنٹ اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں۔ یہ بنک بہت اچھی شہرت کا حامل ہے۔ جتنے پیشہ ورانہ ادارے ہیں ان کے کام سے متعلق اس کے ممبر یا فیلو ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
نہ صرف بنکنگ سے متعلق بلکہ اسلام پر بھی دو اعلیٰ کتب سراب کی تلاش اور اسلام کی روح کے مصنف ہیں۔ انگریزی اخبارات و رسالوں میں آپ کے نہایت اعلیٰ تحقیقاتی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ موجودہ زیر مطالعہ اعلیٰ کتاب Emerging Dynamics of Management کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ یہ خزینہ معلومات 494 صفحات پر مشتمل ہے۔ سراج بھائی نے اپنی زندگی کے تمام تجربات کو اس کتاب میں پیش کردیا ہے۔ آپ نے کمیونیکیشن، اسٹرٹیجی اور انتظامیہ کے اسٹرکچر، لیڈرشپ،پرسنل ڈیولپمنٹ، ہیومن ریسورس مینجمنٹ، بورڈ روم، منیجر کا ٹول باکس، ان عنوانات کے تحت انہوں نے اپنی زندگی (ملکی اور بیرون ملک) کے نہایت قیمتی تجربات اور واقعات کے سمندر کو اس کتاب نما کوزے میں بند کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نابلد شخص کو اس اعلیٰ کتاب پر تبصرہ کرنا بہت مشکل ہے.
سراج بھائی کی اس اعلیٰ تصنیف کو ملک کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور دانشوروں نے بے حد سراہا ہے۔اللہ پاک سراج بھائی اور ان کے اہل و عیال کو تندرست و خوش و خرم رکھے، عمردراز کرے۔ آمین۔ ملک کی مالی، معاشی حالت کی خستہ حالت دیکھ کر یہی مشورہ دونگا کہ اگر سراج بھائی کی طرح ماہرین (مثلاً ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر یٰسین انور، ڈاکٹر شاہد صدیقی، ڈاکٹر اشفاق احمد خان، جناب قیصر بنگالی وغیرہ) کا ایک تھنک ٹینک بنا کر ان سے مالی و معاشی معاملات پر مشورہ لیں۔ اگر ایک دو اعلیٰ انجینئر و سائنسدان بھی شامل کرلیں تو یہ ادارہ مزید بہتر ہوجائے گا۔ حکمرانوں کویہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کی ترقی میں سب سے بڑا کردار ٹیکنو کریٹس نے ادا کیا ہے، بدعنوانوں نے نہیں۔سراج بھائی کو تمام مالی، معاشی اداروں میں، تعلیمی اداروں میں پڑھانا چاہئے تاکہ لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔میرؔ کا پہلا شعر، ’’پُراگندہ طبع لوگ‘‘ میں نے سراج بھائی کی شخصیت کی مماثلت کی وجہ سے پیش کیا ہے اور جو وہ لکھا تو میرؔ کے دوسرے اشعار اور غالبؔ کا شعر بھی یاد آگیا۔
(2) دوسری نہایت اچھی، سبق آموز کتاب ’’میں کل اور آج‘‘ جناب صغیر احمد اسلم کی ہے۔ یہ دراصل ان کی آپ بیتی ہے اور نہایت سبق آموز اور نصیحت آموز واقعات سے پُر ہے۔ اس کی تدوین ابن مہر نے کی ہے اور راولپنڈی سے شائع ہوئی ہے۔
جناب صغیر احمد اسلم صاحب ایک فلاحی ادارے صبا ٹرسٹ کے بانی چیئرمین ہیں ۔ دراصل جناب صغیر احمد اسلم کی کہانی ایک کامیاب داستان ہے۔ آپ نے بہت سے لوگوں کی طرح خیرات، بھیک نہیں مانگی بلکہ قدم قدم پر استقامت و ہمّت کا ثبوت دیا اور خون پسینہ سے کمائی رقم فلاحی کاموں پر لگادی۔ آپ نے ہر قدرتی آفت مثلاً زلزلہ، سیلاب، فسادات وغیرہ کے متاثرین ، غربا، یتیم، بے سہارا بچیوں کی شادی، بیوائوں اور یتیموں کی مدد غرض جہاں ضرورت، تکلیف، درد وہاں صبا ٹرسٹ موجود۔
سیلاب اور زلزلوں سے متاثرہ لوگوں کو مکانات کی فراہمی، ادویات کی فراہمی، امریکہ سے استعمال شدہ کپڑوںکو صفائی کے بعد غربا میں تقسیم کرتے ہیں، آپ نے لاتعداد اسکول و میڈیکل سنٹر قائم کئے ہیں اور لاتعداد سرکاری اسکولوں اور ہیلتھ سینٹرز کو مالی و سامانی امداد مہیا کی ہے۔ جناب صغیر احمد اسلم صاحب تقریباً میرے ہی ہم عمر ہیں، یہ مارچ 1936 میں پیدا ہوئے اور میں اپریل 1936 میں، ایسا لگتا ہے کہ 1936 میں پیدا ہونے والے بے حد محنتی، باہمّت حصول منزل کے لئے پرعزم اور منکسر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم دونوں کو کچھ یکساں کردار عطا کیا ہے۔ میں نے 14 اکتوبر کو صبا ٹرسٹ کی گولڈن جوبلی میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنا تھی مگر بدقسمتی سے ناسازیٔ طبیعت کی وجہ سے میں شرکت نہ کرسکا۔ میں لاہور گیا تھا اور وہاں طبیعت ناساز ہوگئی تھی۔ بہرحال میری نیک دُعائیں جناب صغیر احمد اسلم صاحب کے ساتھ ہیں اور ان کے رفقائے کار کے بھی ساتھ ہیں۔ اللہ پاک ان سب پر اپنی رحمت قائم رکھے، آمین۔
کتاب پر جناب جسٹس خلیل الرحمان صاحب، سید بلال قطب، سابق صدر جناب رفیق تارڑ اور جناب فیصل ایدھی کے نہایت مثبت تاثرات جناب صغیر احمد اسلم کی کارکردگی کا بین ثبوت ہیں۔
(3) تیسری نہایت اہم معلوماتی کتاب، ’’بلوچستان عکس اور حقیقت‘‘ ہے جو ملک کے مشہور صحافی جناب ملک فداالرحمن نے تحریر کی ہے۔ ملک صاحب کا تعلق چکوال سے ہے۔بلوچستان کے دکھوں کا نبض شناس‘‘ قدرت کاملہ کی طرف سے تقسیم کار کے ایک خاص اور مربوط سلسلے کے تحت ہم سب لوگ اپنے اپنے حصے کا کام کئے جارہے ہیں۔ سائنسی تحقیق سے لے کر ترویج علم اور فروغِ ادب کے سارے محاذوں پر کئی شیردل ڈٹے ہوئے ہیں۔
کسی بھی میدان میں کی جانے والی کاوش لمحوں اور گھڑیوں میں کوئی نتیجہ اور ثمر سامنے نہیں لاتی اس کیلئے مصائب اور مشکلات کے ان گنت مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔ ملک فداالرحمن نے ادب کے فروغ کے لئےتنظیمی اور صحافتی سفر طے کرکے جس طرح تصنیفی میدان میں بلوچستان ’عکس اور حقیقت‘‘ کا کرشمہ دکھایا ہے یہ انتہائی لائقِ تحسین کارنامہ ہے۔ مجھے بلوچستان سے متعلق لاتعداد کتابوں کے مطالعے کا موقع ملا لیکن جس طرح بلوچستان کے عوام کے دکھوں، مصیبتوںاور پریشانیوںکے دلدل میں غوطہ زن ہوکر ملک فداالرحمن نے لفظوں کو صفحۂ قرطاس پر بکھیرا ہے اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے بلوچستان کے عوام کے دکھوں کو جاننے اور محسوس کرنے کے لئے بلوچستان کا چپہ چپہ چھان مارا۔ وہاں کے تعلیمی اور صحت کے اداروں کی خستہ حالی اور حالتِ زار کا آنکھوں دیکھا حال تحریر کرکے غریب عوام کے مسائل حل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے۔ انہوں نے جہاں غریب عوام کے حقوق کی بات کی وہاں بلوچستان میں امن کے قیام کے لئے جدوجہد اور کوششیں کرنے والوں کو بھی دل کھول کر داد دی۔ اس کے ساتھ غریب بلوچستان کے حقوق غصب کرنے والوں کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں کی اور ڈنکے کی چوٹ پر ان کے ظلم و ستم کا ذکر کیا۔
مجھے ان کی ادبی تنظیم ’’آئینہ‘‘ کے تحت منعقد ہونے والی متعدد تقاریب میں شرکت کا موقع ملا۔ میں نے ان تقریبات کے انعقاد کے سلسلے میں ان کے احساسات میں اپنے وطن پاکستان اور پاکستان کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دینے والے ہیروز جیسا پُرخلوص محبت کا جذبہ دیکھا۔ اس کی جھلک بلوچستان کے سفرنامے ’’بلوچستان کا عکس اور حقیقت‘‘ میں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے محض سوچ کر تحریر نہیں کیا بلکہ بلوچستان کے تپتے ہوئے صحرائوں اور آگ اگلتے پہاڑوں کے اس کھٹن اور پُرخطر سفر کو طے کرکے لکھا ہے جہاں کی افواہوں اور اطلاعات کے مطابق ہر موڑ پر کسی اجنبی کے لئے بندوق کی گولی انتظار کررہی ہے۔ ایسے حالات میں بلوچستان کے ہر مقام پر خود جاکر مشاہداتی، تاثراتی اور تجرباتی سفرنامہ تحریر کیا ہے۔ میں ان کو ایسی کتاب کی اشاعت کے عظیم کارنامے جس میں اپنے وطن پاکستان اور خاص کر بلوچستان کی محبت اور ان کے ساتھ ہمدردی کتاب کے ہر صفحے پر چھلک رہی ہو، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
خط ان کا بہت خوب ہے، تحریر بھی اچھی
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ