شبیر ناقد کی کتاب ’’شاعرات ارضِ پاک‘‘ – عائشہ اکرام

برصغیر کے زبان و ادب میں مسلمان خواتین کا کردار ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے. ماضی میں خواتین کے ذریعے ادب نے جو ارتقائی منازل طے کیں اور جن مختلف تاثرات سے وہ اثر پزیر ہوا، ان سب کا عکس ان خواتین کی تحریروں میں پایا جاتا ہے۔ بلا شبہ اس خطہ میں بہترین معاشرتی اور اصلاحی ادب مسلمان خواتین کے قلم سے ہی تحریر ہوا۔
برصغیر میں ادب کی تحریر بھی شاعرات کے ذکر سے خالی نہیں ہے۔ اس خطے کی مسلم خواتین نے اپنے زمانے کی سماجی اور معاشرتی پابندیوں کے باوجود اپنے اپنے انداز سے شعری ادب میں اپنا مقام پیدا کیاہے۔ ادب چاہے کسی ملک کا ہو، اس کا لکھنے والا مرد ہو یا عورت،اس میں ہمیں انسانوں کے احساسات اور ان کے خیا لات و جذبات کا اظہار ملے گا۔ پاکستان میں ایسی اہلِ قلم خواتین کی تعداد بے شمار ہے جنہوں نے شعروادب کی روایت کو آگے بڑھائے ہوئے اصنافِ ادب میں بھی بھرپور اضافے کیے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کے جذبات و احساسات مردوں کے مقابلے میں زیادہ دل آویز اور دلکش ہوتے ہیں۔ ان کی زبان شستہ، تصنع سے پاک اور خارجی اثرات سے محفوظ ہوتی ہے اسی لیے ان کے ہاں تشبیہات و استعارات کی بھرمار نہیں ہوتی۔ پاکیزگی کا عنصر بھی مرد شعراء کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اسی فطری شرم و حیا کے باعث وہ شاعری میں کھل کھیلنے سے اجتناب کرتی ہیں۔ صاف ستھرے اور سامنے کے خیالات کو بڑی خوبصورتی، صفائی اور سادگی سے بیان کرنے کی صلاحیت ان میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔

اسی سلسلے کو مدِنظر رکھتے ہوئے’’شبیر ناقد‘‘ نے پاکستانی شاعرات پر مبنی بہترین کتاب ’’شاعرات ارضِ پاک‘‘ مرتب کی ہے جس میں انہوں نے بہت ہی خوبصورتی سے ان شاعرات کا تعارف اور کلام تحریر کیا ہے۔ سات جلدوں پر مشتمل یہ تصنیف قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کی شاعرات پر مشتمل ہے۔ ’’کتاب نامہ‘‘ میں اس ضخیم تصنیف کا تعارف شامل کیا جا رہا ہے۔



عہدِ حاضر کی شاعرات میں جس شاعرہ کا شمار بہ اعتبار طویل مشقِ سخن اورریاضتِ فن پاکستان کی صفِ اوّل کی معتبرشاعرات میں ہوتا ہے وہ معتبر نام ”ادا جعفری‘‘ کا ہے۔ موصوفہ 22 اگست 1926ء کو ”بدایوں‘‘ (بھارت) میں پیدا ہوئیں. تقسیمِ وطن کے بعد پاکستان آگئیں اور مستقل طور پر پاکستان میں رہ رہیں۔ آپ شادی سے پہلے ’’ادا بدایونی‘‘ کے نام سے لکھتی تھیں لیکن شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔

 ان کی سخن سرائی کا آغازترقی پسند تحریک کے د ورِ شباب کے بعد دوسری جنگِ عظیم کی بھونچالی فضاء اور پاک و ہند کی تحریکِ آزادی کے پر آشوب ماحول میں ہوتا ہے۔ ادا جعفری کے کئی شعری مجموعے منظرِ عام پر آئے:

1: میں ساز ڈھونڈتی رہی 1956ء
2: شہرِ درد 1967ء
3: نخرالاںتم توواقف ہو 1972ء
4: ساز سخن بہانہ ہے 1982ء
5: حرفِ شناسائی 1999ء
6: موسم موسم (کلیات) 2002ء
ادا جعفری وہ پہلی شاعرہ ہیں جنہوں نے اُردو ادب کی تاریخ میں طبقہ نسواں کی شاعری کواعتبار بخشا۔ ادا جعفری کا شاعری جدید اندازِ شعر گوئی اور لطیف نسوانی احساسات کے خوبصورت امتزاج کی حامل ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

1: تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کر کہیں بھول گئی ہوں

2: سر کی چادر بھی ہوا میں نہ سنبھالی جائے
اور گھٹا ہے کہ برسنے کا بہانہ چاہے

کتاب ’’شاعرات ارضِ پاک‘‘ کی پہلی جلد میں جس شاعرہ کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے ان کا نام ’’فہمیدہ ریاض‘‘ ہے۔ انہوں نے اپنے افکار کی بدولت دنیائے شعرو سخن میں ایک نمایاں مقام پایا ہے۔ فہمیدہ ریاض ان معدودے چند ابتدائی لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اُردو میں ہندی کے اثر کو قبول کیا۔ ان کے موضوعات میں جدت و شدت کے اثرات نمایاں ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں جو کسی تخلیق کار کی پذیرائی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

  وہ ایک پر آشوب عہد کی نمائندہ ہیں۔ آشوب زدگیوں کا عکسِ جمیل ان کے کلام میں جا بجا جلوہ سامانی کرتا نظر آتا ہے۔ ان کی ایک نظم ’’پتھر کی زبان‘‘ میں ان کے تلخ اور عمیق مشاہدات کی جھلک نظر آتی ہے:

پتھروں پہ دمکتا اکیلا لہو
جھلملاتا لہو بہہ رہا ہے
میرے بیٹے یہاں دیدہ ور کون ہے؟
جو نظارہ کرے
دامنِ کوہ میں
کیسے چمکتے ہیں یاقوت و مرجان
ہم وطن تو کوئی سننے والا نہیں
پتھروں نے سنیں
کرب کی سسکیاں
آخری ہچکیاں

 

شبیر ناقد کی اس کتاب کی دوسری شاعرہ ’’بسمل صابری‘‘ ہیں جنہیں روایات و جدت کا سنگم کہا جاتا ہے۔ بسمل صابری کا شعری سفر نصف صدی پر محیط ہے۔ وہ دنیائے اُردو میں اپنی ایک شعری پہچان رکھتی ہیں اور پاک بھارت کی ہردل عزیز شاعرہ ہیں۔ ان کا یہ شعر اتنا مقبول ہوا کہ زبان زدِعام ہو گیا:

وہ عکس بن کے مری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

بسمل صابری کے پاس روایت بھی اپنا ایک خاص حسن لیے ہوئے ہے جو ان کی طربیہ شعری طبع کو چار چاند لگا دیتی ہے۔

اُردو شاعری میں رجحانات، میلانات اور ہیت و اسلوب کی تازہ کاری کے لحاظ سے ایوانِ سخن میں کچھ شاعرات نمایاں بلکہ کچھ زیادہ ہی نمایاں نظر آتی ہیں۔ جنہوں نے تخلیقی کاوشوں کا اعلٰی ثبوت دیا ہے ان میں ”پروین شاکر‘‘ کا نام بلا مبالغہ اہم ترین ہے۔ احساسِ محبت اور احساسِ الفت کی شاعرہ… ان کے افکار محبت سے لبریز ہیں جن میں پھولوں کی خوشبو بھی ہے اور عشقِ جنوں بھی، کہیں روٹھنے منانے کا ماجرہ ہے تو کہیں ہجر ووصال کے فسانے بھی ہیں:

تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
میرا تن مور بن کر ناچتا ہے
مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے

محبت یا رومان “پروین شاکر‘‘ کے کلام کا مستقل حوالہ ہے۔ جا بجا وہ چاہتوں کے پھول بکھیرتی نظر آتی ہیں گویا وہ سراپا رومان ہیں۔ ان کے کلام میں اختصار و جامعیت ہے جو انہیں دیگر ہم عصر شاعرات سے ممتاز و منفرد کرتی ہے۔ انہوں نے شاعری کے وقار اور عورت کے دھیمے پن کو بحال رکھتے ہوئے شاعری میں نسائی جذبات و احساسات کو بڑی خوبصورتی سے شگفتہ انداز میں بیان کیا ہے۔

ان کے مجموعہ ہائے شعری میں غزلوں اور متفرق اشعار کے علاوہ نظمیں بھی شامل ہیں جو نظم کے فنی امکانات کے ساتھ ساتھ جدید حیت کا احساس دلاتی ہیں۔ پروین شاکر کی دیگر شاعرانہ خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی شاعری میں عام اور سہل اُردو الفاظ کا استعمال کیا ہے جب کہ نظموں میں وہ ہندی کے میٹھے اور رسیلے الفاظ کو شامل کر کے اشعار کا دلآویز بنانے کے فن سے بھی واقف تھیں۔

ہماری اگلی شاعرہ ”ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ‘‘ کے نام سے ہیں۔ عصرِ حاضر کی یہ منجھی ہوئی اور نامور شاعرہ ہیں جنہیں عشق و الفت کی شاعرہ بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں تک ان کی شخصیت کا تعلق ہے تو وہ مزاج کے اعتبار سے انتہائی وضع دار ہیں۔ کھوٹ، منافقت اور ہر قسم کی گروہ بندی انہیں سخت ناپسند ہے.

وہ انتہائی خلوص اورخشوع و خضوع کے ساتھ گلشنِ شعر کی آبیاری کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر نجمہ کے شعری مجموعے ”پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ اور ”میں آنکھیں بند کرتی ہوں‘‘ قارئین سے بھرپور خراجِ تحسین وصول کر چکے ہیں۔ ان کی شاعری سے قاری کو ایک خوشگوار اور لطیف احساس ہوتا ہے۔ ان کی غزل کے یہ اشعار قابلِ ستائش ہیں:

وہ آواز، وہ لہجہ اس کے خال و خد
کس کی یاد میں من مہکائے پھرتی ہوں
جو مجھ کو پہچان نہ پایا آج تلک
دل میں اس کی یاد بسائے پھرتی ہوں
عشق کا روگ بھی عجیب روگ سا ہوتا ہے
صحرا کو گلزار بنائے پھرتی ہوں
شاہین اس سے روشن میری روح بھی ہے
میں جو اک چراغ جلائے پھرتی ہوں

ڈاکٹر صاحبہ کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے لائقِ ستائش ہے۔ اسلوبیاتی جاذبیت ان کے کلام کو اور دلکش بنا رہی ہے۔ ان کے کلام میں بہت سے روشن امکانات موجود ہیں جو ان کے بہتر مستقبل کی بشارت دے سکتے ہیں۔ ان کی دو نظمیں ”شام کی دہلیز پر لیں درد نے انگڑائیاں‘‘ اور ”راشنی کرنی تھی جس نے وہ دھواں کرتا گیا‘‘ عصرِ حاضر کی بہترین غزلوں میں شمار ہوتی ہیں۔

   

”زیب النسا زیبی‘‘ کا شمار ملک کی مایٔہ ناز شاعرات میں ہوتا ہے۔ زیب النسا زیبی اقلیم شعرو ادب میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ادبی حوالے سے وہ ایک کثیر الجہات شخصیت کی مالک ہیں۔آپ شاعرہ بھی ہیں اور افسانہ نگار بھی، ناول نویس بھی ہیں اور کالم نگار بھی۔ اس کے علاوہ آپ نے تحقیق کے شعبے میں بھی خوب نام کمایا ہے۔

زیب النسا زیبی کی ہر تحریر شعور و آگہی کا ایک دھارا ہے۔ خار زارِ ادب میں داخل ہونا ایک خاتون کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ابھی تک مجموعی طور پر نظم و نثر پر مبنی ان کی ایک درجن کتب منصئہ شہود پر آ چکی ہیں۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

جو خون کے آنسو رلاتی ہے بھوک پیاس یہاں
یہ بھوکے لوگ خدا جانے کس جہاں کے ہیں؟
یہ اہلِ زر کہ جو رازق بنے ہوئے ہیں خود
زمیں پہ رہتے ہیں انداز آسمان کے ہیں

 

عصرِ حاضر میں بہت سی شاعرات میدانِ شعر میں اتریں۔ آوازوں کے اس ہجوم میں اپنی ایک الگ شناخت بنانا ایک کٹھن مرحلہ تھاجن میں سے چند شاعرات ہی اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب ہوئیں ۔ان میں ایک نام ”زہرانگاہ‘‘ کا بھی ہے۔ زہرا نگاہ کا طرزِاظہار جداگانہ نوعیت کا حامل ہے وہ عام ڈگر سے ہٹ کر شعر کہتی ہیں:

1:ہر حکمراں آگے بصد ناز وافتخار
سچی زمیں پہ کھینچتا ہے جھوٹ کا حصار

2:ساتویں آسمان تک شعلہ علم و عقل تھا
پھر بھی زمینِ اہلِ دل کیسے ہری بھری رہی؟

زہرانگاہ کے ہاں ذاتی حوالوں کی نسبت اجتمائی حوالے بکثرت ملتے ہیں۔ وہ مجموعی طور پر سماج کی بے حسی کا رونا روتی ہیں۔ زہرانگاہ کا کلام جدت و ندرت آمیز ہے۔ ان کا پیرایٔہ اظہار غیر روایٔتی اہمیت رکھتا ہے جو انہیں دیگر ہم عصر شاعرات سے ممتازومنفرد کرتا ہے۔

 

لاہور سے تعلق رکھنے والی ”ڈاکٹرصغریٰ صدف‘‘ کا شمار پاکستان کی ممتاز اور معروف شاعرات میں ہوتا ہے۔ ایک ایسی شاعرہ جن کی شاعری محض الفاظ نہیں بلکہ آپ پوری خوداعتمادی کے ساتھ اپنی شاعری پر مضبوط گرفت رکھتی ہیں۔ نزاکتِ خیال اور لطافتِ بیان جو کہ شاعری کے بنیادی عناصر ہیں اور ڈاکٹرصغریٰ صدف نے ان محاسن کو خوب نبھایا ہے۔

آپ خوبصورت اور مؤثر لب ولہجہ کی معروف شاعرہ کہلاتی ہیں ”وجدان‘‘ نامی ادبی جریدے کی ادارت بھی کرتی رہی ہیں اور اس کے علاوہ ”شام و سحر‘‘، ”ارژنگ‘‘ اور دیگر متعدد ادبی جرائد میں بھی ان کا کلام تواتر سے چھپتا رہتا ہے۔ ان کی غزل کے دو اشعار ملاحظہ ہوں:

نقصان تیرے دھیان میں اکثر ہوا مرا
ہاتھوں سے گِر کے ٹوٹ گیا آئینہ مرا
وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میں خوش ہوں اس کے ساتھ
واقف نہیں ہے درد سے درد آشنا مرا

 

حالیہ برسوں میں کچھ ایسی شاعرات کے نام سامنے آئے ہیں جنہوں نے اپنے پہلے ہی مجموعہ کلام سے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔ ”صدف غوری‘‘ بھی انہی شاعرات میں سے ایک منجھی ہوئی اور با شعور شاعرہ ہیں جن کی شاعری میں زندہ حقیقتوں کا احساس ملتا ہے۔

آپ کا تعلق کوئٹہ سے ہے اس لیے فطری طور پر آپ کا سخن لطیف اور خوشگوار احساسات سے مزّین ہے:

وہ رنگوں میں سجی وادی تو چٹخیں پھر حسیں کلیاں
ندی بھی گنگنا اٹھی ،سو دھارے رقص کرتے ہیں
حسین دلکش مناظر میں اچانک تیرا آ جانا
سریلے بول اور نغمے ہمارے رقص کرتے ہیں

صدف غوری کے کلام میں وسیع و عمیق زندگی کا ادراک ملتا ہے جو ان کے سماجی شعور کا مظہر ہے۔ ان کے کلام میں بہت سے روشن امکانات موجود ہیں جن سے ان کے بہتر مستقبل کی نوید دی جا سکتی ہے۔ انہیں فنی اسرار و رموز پرخاطر خواہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے فن میں جملہ محاسن پیدا کر سکیں۔

 

جو سخن ور اپنے فن کو لسانی گورکھ دھندوں اور فکری موشگافیوں کے جھمیلوں میں الجھانے سے گریزاں رہتے ہیں ان کا طرزِ اظہار فطری نوعیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس طرح ان کی رسائی قاری کے دل و دماغ پر براہ راست ہوتی ہے اور وہ جلد ہی مقبولیت و پذیرائی سمیٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ایسے ہی ہم سخن احباب میں ایک نام ”نوشی گیلانی‘‘ کا بھی ہے۔ پاکستانی ادب کے جدید شعرو سخن میں ایک جرأت مند اور باحوصلہ خاتون ہیں، نمونہ کلام:

محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصّے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا

نوشی گیلانی کی خوبصورت شاعری کے حوالے سے نامور ادیب و شاعر امجد اسلام امجد لکھتے ہیں کہ:
”اس کی شاعری میں ہرہر قدم پر آپ اس کی عمر کی آواز سن سکتے ہیں‘‘
نوشی گیلانی کے ہاں غم کی آنچ انتہائی گہری ہے اور اسی قربِ زیست کے باعث وہ قاری کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ وہ زیست کا عمیق ادراق رکھتی ہیں اس لیے ان کے کلام میں ایک عمرانی شعور بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

 

شبیر ناقد کی کتاب ”شاعرات ارضِ پاک‘‘ کی تیسری جلد میں مشہور شاعرات میں سے ایک شاعرہ ”ریحانہ قمر‘‘ کا ذکر بھی ہے جنہوں نے گذشتہ برسوں میں پاکستانی ادب میں اپنی منفرد حیثیت منوالی ہے۔ اس شاعرہ کا کلام خوبصورت اور آواز مؤثر ہے۔ ریحانہ قمر ایسی شاعرہ ہیں جنہوں نے روحِ عصر کے تمام تر امکانی موضوعات کا منفرد لب ولہجہ اور چونکا دینے والے اسلوب کے ساتھ احاطہ کیا ہے، چند اشعار:

بہے ہیں اشک نہ ابھری ہیں سسکیاں میری
ہوا سناتی پھرتی ہے کہانیاں میری
میری اداسی کا جب بھی انہیں ہوا معلوم
تمہارا پوچھنے آئیں سہیلیاں میری
نہ کوئی پینگ پڑی ہے نہ پھول آئے ہیں
بہت اداس ہیں کچھ دن سے ٹہنیاں میری

 

ہماری اگلی شاعرہ ”شاہدہ لطیف‘‘ ہیں جو اپنے نام کی طرح لطیف جذبات کی شاعرہ کہلاتی ہیں۔ ایسے تمام جذبے جو مسرور کن، پر کیف، خوشگواراور رجائیت آمیز اور لطافت سے لبریز ہوں لطیف جذبے کہلاتے ہیں۔ شعر ملاحظہ ہو:

تھاما جو اس نے ہاتھ موسم نکھر گیا
آنکھوں کے رستے میرے دل میں اتر گیا

شاہدہ لطیف نے اب تک تین منظوم سفرنامے “برف کی شہزادی” (پیرس)، “اُف یہ برطانیہ” (برطانیہ) اور “بیت اللہ پر دست” (حجاز نامہ)  تحریر کیے ہیں. شاہدہ لطیف کا یہ منفرد کارنامہ آپ کو دیگر شاعرات سے ممتاز کرتا ہے. ان تین منظوم سفرناموں کے علاوہ تا حال شاہدہ لطیف کی نظم و نثر کے حوالے سے مندرجہ ذیل کتب منصہ شہود پر آ کر قارئین اور اصحابِ نقدونظر سے خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں:

1۔ معجزہ (شاعری)
2۔ میں پاکستانی ہوں (شاعری)
3۔ محبت ہو نہ جائے (شاعری)
4۔ معرکۂ کشمیر (مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں شاعری)
5۔ حکایات کا انسائیکلو پیڈیا (تحقیق)
5۔ سات قدیم عشق (ناول)
7۔ پاکستان میں فوج کا کردار (صحافت)
8۔ امریکہ،اسلام اورعالمی امن (صحافت)
9۔ دنیا کے ستر عجوبے (ترجمہ)
10۔ مختصر کہانیاں

شاہدہ لطیف کے ہاں ایک خود اعتمادی کی فضا پائی جاتی ہے. خارزارِ ہستی میں وہ اپنے کردار سے بخوبی واقف ہیں اس لیے وہ محبتوں کی بات کرتی ہیں۔

میرا آنچل ہوا میں لہرایا
موسمِ گل تمام شرما گیا

سب دھنک اوڑھ کر سوالی ہیں
رنگ چاہت کا ایک ہی بھایا

 

پاکستانی شاعری کی روایات کو آگے بڑھانے میں شاعرات کا قابلِ تعریف حصّہ رہا ہے۔ جن شاعرات نے صنفِ نازک کے محسوسات اور مسائل کو بہتر انداز میں پیش کیا ہے ان میں ”فاطمہ حسن‘‘ ایک نمایاں نام ہے۔ آپ 1965ء اور 1970ء کی دہائی میں منظرِ عام پر آنے والی شاعرات میں انفرادی شخصیت اور منفرد لہجے کی مالک ہیں۔

ایک جیسی بہت سی آوازوں میں اپنی آواز کو مختلف اور منفرد بنانا فاطمہ حسن کا خاصا ہے. فاطمہ حسن نے اپنے احساسات خود تلاش کیے ہیں اور انہیں اظہار کی نئی صورت میں اپنے اولین شعری مجموعے”بہتے ہوئے پھول‘‘ میں دی ہے۔ فاطمہ حسن کے کئی شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ نمونہ کلام پڑھیے:

دیکھ مجھ سے باتیں کرتے رہنا تم
تم سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ان کے اس شعر میں احساسِ خلوت نمایاں ہے۔ بالکل اسی طرح ان کے ایک اور شعر میں زیست کی بے ثباتی کا ذکر ملتا ہے:

1: کیوں سوچ رہی ہوں کل کی باتیں
کیا کوئی ابد تلک جیا ہے؟

2: یہ ہنر بھی اس کا کمال ہے یہ اس کا عکسِ جمال ہے
مراآئینہ جو وہ بن گیا مرے خدوخال سنور گئے

فاطمہ حسن کے فکری اور فنی گوشوں کی سیر ہو کر سیر کرنے کے بعد یہ انکشاف انتہائی قوی ہے کہ ان کے شعری مخزن میں بے پناہ فکری زاویے ہیں جو اپنے قاری کے لیے آغوش کشا نظر آتے ہیں اور اسے قابلِ تسکین امکانات بہم پہنچاتے ہیں۔

 

” فاخرہ بتول‘‘ شاعرات کی بھیڑ میں کبھی نہ گم ہونے والی شاعرہ ہیں. وہ نئی نسل کی شاعرات میں اپنے لب و لہجہ کی وجہ سے انفرادیت رکھتی ہیں۔ فاخرہ بتول کے موضوعات سراسر نسوانی ہیں۔ فاخرہ بتول غزل کم کہتی ہیں لیکن جتنا کچھ بھی کہتی ہیں اسے اچھا کہتی ہیں۔

ان کی غزلوں میں احساسات کی دھڑکنیں محسوس ہوتی ہیں. ان کے کلام میں جذباتِ عشق اور احساسِ حسن پایا جاتا ہے۔

گھر کو بنانے والا تو مٹی میں سو گیا
حصّے جو بٹ گئے تو کوئی یاد آ گیا

فاخرہ بتول کے کلام میں داخلی اظہار کے بے انت شواہد ضوپاشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں. انہیں داخلی احساسات کے پردے میں ان کے بے پناہ ذاتی حوالے پنہاں ہیں گویا داخلیت بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ ان کے ہاں جلوہ گر ہے۔ ان کی دو غزلیں”جو سوا نیزے پہ سورج کے نکلتا ہو گا‘‘ اور ”دیکھا تو سب خیال کے منظر بدل گئے‘‘ بے پناہ مقبول اور قابلِ تحسین ہیں۔

 

شاعری لاتعداد رجحانات اور میلانات سے عبارت ہے۔کسی بھی معتبر شاعریا شاعرہ کے ہاں اس کے بے شمار فکری زاویے مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں ۔اکثر شعراء و شاعرات کے رجحانات عمومی موضوعات کے گرد گھومتے ہیں۔ نسائی شعری ادب میں چند شاعرات ایسی ہیں جن کے ہاں فکری رجحانات کی بہتات ہے۔

انہی ہستیوں میں ایک نام “کشور ناہید‘‘ کا بھی ہے جن کا کلام فکری اور فنی پختگی کا غمازہے۔ ان کی ایک غزل کے دو اشعار درج ہیں:

آنکھوں میں سوئی خواہشیں جاگیں تو جسم بھی
ساکت سمندروں پہ کھلا بادباں لگا
وہ شخص جس کی آنکھ بے رنگ بے طلب
پہلے پہل ملا توبہت مہرباں لگا


کشور ناہید کے شعری ادراکات عمیق وبسیط ہیں جن میں عمرانی شعور جھانکتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ حقیقی زندگی کی حقیقتوں کی شناور ہیں۔ ان کے کلام سے قاری کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ مزید شعری ریاضت ان کے لیے فزوں تر معیارات کی ضامن بن سکتی ہے۔

 

”ارم زہراء‘‘ کو روشن امکانات کی شاعرہ بھی کہا جاتا ہے۔ ارم زہراء نے اپنے اشعار میں زندگی کے موضوعات کو منظوم کیا ہے۔ ان کے کلام میں انسانی کرداروں ،رشتے داروں کے مختلف رویوں، ذاتی احساسات، عمیق مشاہدات اور معاشرتی دبائوکا خوف واضع محسوس ہوتا ہے مگر ان کے کلام میں منفی اور مثبت دونوں اثرات سما گئے ہیں۔

ان کی شاعری کا مرکزی کردار عورت ہے جس کو ارم زہراء نے بہت خوبصورتی سے نبھایا ہے۔ پروین شاکر کی طرح انہوں نے اپنے جذبات کی شدت کا اظہار بھی کیا ہے اور اپنے خیالی محبوب کی بے وفائی اور خود غرضی کا رونا بھی رویا ہے جس سے ان کی شاعری میں محبت اور فرض کے مختلف کردار ابھرتے ہیں۔ ان کے مختلف اشعار میں ان باتوں کا کھلا اظہار پایا جاتا ہے مثلاََ:

میرے کردار کو سوچو ذرا تمثیل سے پہلے
ادھورا کر رہے ہوکیوں مجھے تکمیل سے پہلے
تمہارے حکم پر کیسے سرِ تسلیم خم کر دوں
مجھے ساری وضاحت چاہیے تعمیل سے پہلے

ارم زہراء کی شاعری اُردو ادب میں مقام و مرتبہ متعین کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔ ان کی شاعری ارتقائی لحاظ سے سنگِ میل کا کردار ادا کرے گی جن کو پڑھنے کے بعد قارئین شعرو سخن انہیں دادو تحسین سے نوازیں گے اور ناقدینِ فن و ہنر اور اہلِ ادب کی توجہ ان کی جانب مبذول ہو جائے گی۔

رت بدلی تو پھر ملنے کا آیا ہے زمانہ
ہاتھوں پہ وہی طرزِ حنا لوٹ کے آئی
چہرے پہ نیا چہرہ ارم اس نے لگایا
میں سمجھی کہ پھر میری وفا لوٹ کے آئی

 

شبیر ناقد اپنی کتاب ”شاعرات ارضِ پاک‘‘ کے حصّہ چہارم میں ”ثمینہ راجہ‘‘ جیسی امتیازی اہمیت کی حامل شاعرہ کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ ثمینہ راجہ کے کلام میں وسعتِ فکر ونظر کار فرما نظر آتی ہے۔ ان کا کلام بہت فصیح و بلیغ ہے اور ان کا فکری کینوس بہت بسیط ہے۔

 

تین سال قبل ان کی رحلت ہو گئی۔ اگرچہ وہ جسمانی اعتبار سے ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی سخن انہیں تا حشر زندہ رکھے گی۔ مجموعی طور پر ان کی زندگی میں ہی تیرہ شعری مجموعے منظرِ عام پر آچکے تھے۔ان کی غزل کا ایک شعر یہ ہے:

آئینہ کیوں سیاہ لگتا ہے؟
کیا اندھیرے سے میں بنی ہوئی تھی؟

ثمینہ راجہ کے کلام کے بارے میں یہ بات بہت اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کا سخن وسعت کا حامل ہے. نہ صرف وسعت آمیز ہے بلکہ رفعت آمیز اور فکر انگیز بھی ہے۔گلشنِ سخن میں تا دیر اس عندلیبِ خوشنوا کی آوازسنائی دیتی رہے گی۔

شام اتری ہے جل پری کی طرح
روشنی ہو گئی ہے ساحل پر



 

شاعرات کے قافلے میں”ثروت زہرا‘‘ کا نام بھی کم اہمیت نہیں رکھتا۔ ثروت زہرا کو اپنے خیالات و احساسات کو اشعار میں ڈھالنے کا فن آتا ہے۔ آپ اتنی خوبصورتی سے اپنے دل کی بات کو الفاظ میں ڈھال کر شاعری کی صورت میں بیان کرتی ہیں کی پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

آپ کے کلام میں فلسفیانہ اور حکیمانہ طرز کے باوجود انفرادی جذبوں کی کھنک بھی سنائی دیتی ہے۔ ثروت زہرا کی کتاب ”جلتی ہوا کا گیت‘‘ جو کہ جنوری 2012ء کو مصنہ شہود پر آئی، اس کی اولین غزل کا مطلع یہ ہے کہ:

1:سحر سے شام تک وحشت چلی ہے
تھکن سے وقت کی لو ٹوٹتی ہے

2:اپنی سانسوں کے خالی برتن میں
مستقل پیاس بھر رہا ہے کوئی

الغرض ثروت زہرا کے کلام میں فکرو فلسفہ کی قرینہ کاری اپنے درجہ کمال کی طرف رواں دواں ہے جس سے مزید امکانات کی نویدِ سعید ملتی ہے۔ ان کے کلام میں زبان و بیان کے اظہار کا معیار اعلیٰ و ارفع ہے۔

 

شاعری کے میدان میں ”سعدیہ سیٹھی‘‘ کی بہترین شاعری سے شاعرات کی فہرست میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ آپ کس قدر حساس ہیں اور اپنے احساسات کو کھرے پن کے ساتھ پیش کرنے کا سلیقہ رکھتی ہیں۔

اُردو شاعری میں صنفِ غزل اپنی خوبصورتی اور دلکشی کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔ اسی لیے سعدیہ سیٹھی کا شمار بھی پاکستان کی انہی بہترین شاعرات میں ہوتا ہے۔ ان کے اولین شعری مجموعہ ”رقص خوشبو کا‘‘ مطبوعہ 2001ء کی غزلیات کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

تمام عمر جو آنکھوں نے میری دیکھے ہیں
میں جانتی ہوں وہ سب خواب میرے جھوٹے ہیں

دل و دماغ میں ہوتا ہے رقص خوشبو کا
زبانِ خلق سے جب اپنے شعر سنتے ہیں

 

فطری طور پر ہر شاعر اور شاعرہ فکری اعتبار سے اپنی شاعری کا آغازجذبہ رومان یا محبت سے کرتا ہے بالکل اسی طرح ”غز ل انصاری‘‘ نے بھی اپنے نام کی طرح اپنی غزلوں میں نسائی جذبوں، احساسات، مشاہدات، کیفیات اور قلب و نظر کو زبان عطا کر دی ہے۔ پاکستان کی جدید تر شاعرات میں غز ل انصاری نمایاں مقام رکھتی ہیں۔

آپ کی شاعری میں عصری سچائیوں اور انسانی رویوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے:

کس سے فریاد کریں ،حالِ وفا کس سے کہیں؟
کون سنتا ہے یہاں ،دل کی کتھا کس سے کہیں؟

ان کے شعری کینوس میں سماجی منظر نامہ بھی اپنی حقیقی صورت میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ وہ دنیا کو مکافاتِ عمل سمجھتی ہیں اور خود تنقیدی کے کٹھن اور جاں گداز عمل سے گزرتی ہیں۔فکر کا یہ جاں انداز ان کی شخصی صداقت کی عمدہ تمثیل ہے۔

رسوائیاں ہیں اپنے ہی اعمال سے نصیب
کردار کیا ہے اپنا،تصور میں لائیے؟

 

ممتاز شاعرہ ”سحاب قزلباش‘‘ کی شاعری حسرت آمیز شاعری کہلائی جاتی ہے۔ آپ کا پہلا مجموعہ کلام ”لفظوں کے پیرہن‘‘ جنوری 2002ء کو طبع ہوا۔ جس میں غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی ان کے والد تھے جن کا تعلق دہلی سے تھا۔ اس لیے انہیں اہلِ زبان ہونے کا شرف حاصل ہے۔

اگرچہ سحاب قزلباش کا کلام مقدار میں کم ہے لیکن معیار میں کم تر درجے کا نہیں ہے:

غموں کے زخم اٹھاتے رہے خوشی کے لیے
ترس گئے ہیں محبت کی زندگی کے لیے

انہیں اپنے ہم وطنوں سے بے انتہا محبت ہے اس لیے وہ پیار کا جادو جگانا چاہتی ہیں:

اٹھو کہ پیار کا جادو جگائیں اہلِ وطن
ابھی ہے وقت کہ دامن سے باندھ لیں دامن

 

”ناہید ورک” جدید تر اُردو شاعری کے افق پر ان چند ناموں میں سے ایک نام ہے جن کے یہاں شاعری کا عمومی مزاج داخلی اظہار سے عبارت ہے جس میں عشقِ مجازی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی ناہید ورک کی شاعری میں پیا ر و محبت کے خصائص پائے جاتے ہیں۔ غمِ جاناں ان کی شاعری کا بنیادی حوالہ ہے۔

ان کا پہلا شعری مجموعہ ”تیرے نام کی آہٹ‘‘ 2013ء کا منظرِ عام پر آیا جس میں غزلیات اور آزاد نظمیات شامل ہیں. نمونہ کلام:

1:وہ ہم مزاج ہے نہ میرا ہم خیال ہے
گر ہے تو لمحہ لمحہ یہی اک سوال ہے

2:ہمیں تیری محبت میں کمی اچھی نہیں لگتی
چلو چھوڑو بھی اتنی بے رخی اچھی نہیں لگتی

3:تھک گئے ہیں ہم تیرے روز کے ستانے سے
توڑ دے تعلق کو اسی طرح بہانے سے


شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کے اس مجموعے کو ”رنگَ ادب پبلیکیشنز، کراچی‘‘ نے بہت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ اس مجموعہ کی اشاعت پر ادارہ ”کتاب نامہ‘‘ ان کتابوں کے مصنف شبیر ناقد اور ناشر شاعر علی شاعر کو مبارک باد پیش کرتا ہے۔

نوٹ:‌ کتب ”شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کا مکمل سیٹ‌ حاصل کرنے کے لیے پتا:
رنگ ِادب پبلی کیشنز ، 5، کتاب مارکیٹ ، اُردو بازار ، کراچی۔ فون: 021-32761100