”کابوس“ کا سر ورق، پیپر کوالٹی، تصویری خاکے اور پرنٹنگ… سب بہترین ہے. ابتدا میں جس دن کتاب مجھے وصول ہوئی تو صفحات کی تعداد کے لحاظ سے قمیت کچھ زیادہ محسوس ہوئی مگر اسے پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ قیمت تو کچھ بھی نہیں۔ ”کابوس“ کے مختصر اور سبق آموز افسانوں نے فکشن کے لیے میری دلچسپی بڑھا دی ہے۔ میں اسے اپنے سفر کی کتاب کہہ سکتا ہوں کہ جب بھی گھر سے ڈیوٹی کے لیے یا ڈیوٹی سے واپس گھر کے لیے روانہ ہوتا ہوں تو ہلکی سی خوب صورت ”کابوس“ میری ہم سفر ہوتی ہے۔ اس میں موجود حقیقت پر مبنی افسانے نہ صرف لگاتار پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ درد کی جس کیفیت تک لے جانے کے مسلم انصاری صاحب اہل ہیں، وہ نا قابلِ بیان ہے۔ پڑھتے ہوئے کب منزل پر پہنچ جاتا ہوں، محسوس ہی نہیں ہوتا۔
اس کتاب میں موجود تلخ افسانوں کے بہت سے کردار وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کھل کر بات نہیں کی جاتی. ان پر طنز کیا جاتا ہے یا پھر بھری محفل میں ان کے متعلق ”سرگوشیاں“ ضرور کی جاتی ہیں۔ یہ افسانے معاشرے کے ان تمام افراد کو حوصلہ فراہم کرتے ہیں جنہیں ہمارے معاشرے نے تکلیف پہنچا کر نظر انداز کر دیا ہے. مسلم انصاری صاحب نے ایسے افراد کے غموں اور تکلیفوں کو سن لیا ہے، ان کی عزتِ نفس کو مجروح ہوتے دیکھ لیا ہے اور ان کا درد محسوس کر کے الفاظ کی تسبیح میں پَرو دیا ہے جسے قاری پڑھتا جاتا ہے اور آنسوؤں کی جھڑیاں چھلکتی رہتی ہیں۔ میں اس کتاب کے ذریعے مسلم انصاری کے الفاظ محسوس کر پایا ہوں کہ وہ حساس دل کے مالک ہیں.
اس کتاب میں، ہمارے معاشرے میں جانداروں پر ہونے والے ظلم و ستم، نا انصافی، بے گناہوں کا قتل، لوگوں کی بے حسی پر ماتم، اپنوں کے کھو جانے کا غم اور صنفِ نازک کی مختلف شکلوں میں تضحیک، اس کو پیش آنے والی تکالیف کے ساتھ معاشرے کے برے رویے اور ستم ظریفی کو تلخ افسانوں کی شکل میں کھل کر بیان کیا گیا ہے۔
میں مسلم انصاری صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے اور قاری کے مشاہدے کو بہترین الفاظ کی صورت عطا کی اور معاشرے کے چھپے ہوئے بھیانک چہرے کو قارئین کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ ”کابوس“ کے چند افسانوں سے اقتباس:
”میرے پیارے بھائی! میں تمہاری بہن ہوں جسے تم فقط دس سال کی عمر میں چھوڑ گئے، گاؤں سے چلے گئے، آخر تم گاؤں سے کیوں گئے تھے اور مجھے ساتھ لے کر کیوں نہیں گئے؟ تم تو۔۔۔ مجھے کاندھوں پر بھٹا کر کھیتوں میں چکر لگایا کرتے تھے، گاؤں کے میلے دکھاتے تھے، ماں بھی روئی، اس کی آنکھوں میں موتیا اتر گیا ہے۔ کیا جب سے تم ہمیں چھوڑ کر گئے ہو، ہماری یاد نے تمہیں نہیں رلایا؟“
( گاؤں سے شہر دیکھنے آئی لڑکی)
”میں صغیر سے پوچھ رہی تھی کہ: لڑکیوں کا تو چڑیاں دا چمبا گھر ہوتا ہے. بابا میں بھی ایک روز بابل کے گھر سے اڑ گئی تھی، میں سوچ رہی تھی مردوں کا چڑیاں کا چمبا کیا ہوتا ہے؟
صغیر نے بتایا کہ جس دن مرد کمانے جاتا ہے وہ اپنے چمبے سے اڑ جاتا ہے.
پر باؤ جی مرد تو شام گئے لوٹ آتے ہیں! واپس نہیں آتے تو بس آپ نہیں آتے! بس آپ کی یاد آتی ہے۔“
(چڑیاں دا چمبا)
”کہانیاں… قبر کے کتبوں میں سانس لیتی ہیں، کہانیاں… گورکن ہیں، اندر اندر سے بندہ کھود دیتی ہیں پھر کہانیاں مر جاتی ہیں، ایک کہانی کو قبرستان تک لے جانے میں صرف چار کہانیوں کے کاندھے کافی ہوتے ہیں.“
(کہانیوں کا قبیلہ)
”تم نے کبھی کسی طوائف کی جھوٹی چائے پی ہے؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہنے لگی:
وہ پھیکی ہوتی ہے! حالاں کہ وہ چائے میٹھی بنتی ہے مگر کسی طوائف کے منہ سے لگ کر وہ پھیکی ہو جاتی ہے کیوں کہ اس کے ہونٹوں کی ساری مٹھاس لوگ چوس چکے ہوتے ہیں.“
(ماہ پارہ، ایک غلطی اور چائے)