ممتاز پاکستانی سکالر ابویحییٰ کی فکر انگیز کتاب، ”قسم اُس وقت کی“ – محمد عمران اسحاق

عزیز قارئین! چند ماہ قبل میں نے جناب ریحان احمد یوسفی المعروف ابویحییٰ کی مقبول تصنیف ”جب زندگی شروع ہوگی“ کے مطالعے کے بعد اپنا مختصر تبصرہ و تعارف آپ کے سامنے پیش کیا تھا۔ آج اسی ناقابل فراموش تصنیف کا دوسرا حصہ ”قسم اُس وقت کی“ کا مطالعہ اختتام پذیر ہوا۔ یہ حصہ دراصل ایک منکرِ خدا لڑکی کی داستان ہے جو دورِ حاضر کے الحادی نظریات کی قائل تھی یعنی کہ اللّٰہ پاک وجود اور قیامت کے دن پر یقین و ایمان نہیں رکھتی تھی۔ اس کے بہت سے اعتراضات کا جواب اس ناول میں کہانی کی صورت میں بڑی خوبی اور خوش اسلوبی کے ساتھ فراہم کیا گیا ہے۔ سچ کہوں تو مجھے یہ حصہ پہلے حصّے سے بھی زیادہ دلچسپ محسوس ہوا۔ گو افادیت کے اعتبار سے دونوں مختلف مگر موثر ہیں۔
پہلے حصّے میں موت کے بعد قیامت کے مناظر بیان کیے گئے ہیں تو دوسرے حصّے میں اللّٰہ پاک کے وجود، قیامت قائم ہونے کے عقلی دلائل، انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں ایمان لائے والے مومنین پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے انعامات کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کی نافرمانی کرنے والی اقوام پر اللّٰہ پاک کی طرف سے آنے والے شدید عذاب کو بیان کیا گیا ہے تاکہ اہلِ ایمان خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر آخرت کی تیاری میں مصروف ہوں. اس کے علاوہ ایسے لوگ جو اللّٰہ پاک کے وجود اور روزِ قیامت کے منکر ہیں، ان کے لیے اس کتاب میں اللّٰہ پاک اور قیامت قائم ہونے کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کیے ہیں جو انسانی عقل پر حاوی ہیں اور ایمان والوں کے یقین پر مہر ثبت کرتے ہیں۔
سورۃ العصر کی روشنی میں جو انسان خسارے میں ہیں ان کی نشان دہی کی گئی ہے تو اسی کے ساتھ ایمان لانے والوں، نیک اعمال کرنے والوں اور صبر کی تلقین کرنے والوں کے لیے انعامات کو قرآن مجید کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے۔ اس ناول کو پڑھنے، سمجھنے اور اس میں بتائی گئی باتوں پر عمل کرنے سے انسانی زندگی میں آخرت کی فکر، گُناہوں سے توبہ، خلقِ خدا کی خدمت کا جذبہ اور امر بالمعروف کی تحریک جنم لیتی ہے۔ یہ کتاب ہمارے ایمان کو یقین میں ڈھالنے کی سعی کافی ہے.
ایک احساس جس نے دورانِ مطالعہ مجھے گھیرے رکھا، وہ یہ تھا کہ بنا خاص عطاالہی، ان کتب کا لکھنا ممکن نہیں۔ اس اعتبار سے مجھے ابو یحییٰ صاحب پر رشک آیا۔ میں رب العالمین کی رحمتوں پر یقین رکھتے ہوئے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ ان تصانیف کو مصّنف کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنا دیں، آمین۔