ممتاز شاعر، نقاد، محقق و عروض دان، فیض الحسن ناصرؔ کا ’’شیریں سخن‘‘ – راشد منصور راشدؔ

فقط اک آنکھ سے ربط ہے
اندھا بھی خواب دیکھتا ہے

اس خوب صورت شعر کے خالق، دھرتی گجرات کے ممتاز شاعر، نقاد، محقق و عروض دان فیض الحسن ناصرؔ ہیں جن کو مختلف تنظیموں نے ادبی خدمات کے صلہ میں اعزازات و انعا مات سے نوازا۔ ایک مشاعرہ میں انھوں نے اپنا شعری مجموعہ ”شیریں سخن“ راقم الحروف کو محبت بھرے جذبات کے ساتھ عطا کیا، جس کے مطالعہ کے بعد حق بنتا ہے کہ شاعر اور ان کی شاعری بارے کچھ لکھا جائے۔

ابتدا میں صاحبِ کتاب نے آپ اپنا تعارف کروایا ہے جس کے مطابق موصوف نے 20 نومبر 1943ء میں ایک علمی، ادبی، دینی و کاروباری شخصیت عبداللطیف افضل کے ہاں آنکھ کھولی۔ 17 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا اور پہلی طرحی غزل 1960ء میں پیش کی۔

کیا کہوں کس سے کہوں کیسے کہوں حالِ دروں
دل کا غم دل کی زباں سے دل کو سمجھاتا ہوں میں

رفتہ رفتہ ذوق و شوق پروان چڑھتا گیا اور میدانِ شاعری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اردو اور پنجابی میں شعر کہتے ہیں۔ ”شیریں سخن“ اولیں مجموعہ ہے جب کہ تین اردو نظموں کے مجموعے، تین اردو غزلوں کے مجموعے اور ایک پنجابی نظموں کا مجموعہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
’’شیریں سخن‘‘ کاآغازسورۃ العٰدیات کے منظوم ترجمہ سے کیا ہے جس کے بعد حمد باری تعالیٰ میں ایمان افروز اشعار کے ذریعے خالقِ کائنات کی حمد و ثنا کرتے ہوئے اس کی بزرگی اور پاکی بیان کی ہے:

نہیں والد کوئی اس کا، نہیں اس کا ولد کوئی
اَحَد ہے وہ صمد ہے وہ، ہے اعلیٰ مرتبہ اس کا
سبھی تسبیح پڑھتے ہیں، اسی کی حمد کرتے ہیں
وہ ہر اک سے شناسا ہے، ہر اک ہے آشنا اس کا

سرکارِ دو عالمﷺ کی مدح سرائی کچھ ایسے کی:

آشنائے سبل، پیشوائے رُسل
خاتم الانبیاء، مصطفےٰ مصطفےٰ

وطن سے محبت میں سرشارلکھتے ہیں:

اس دھرتی کا دنیا میں ہے سب سے اونچا نام
ہر وادی، ہر بستی کا ہے اپنا ایک مقام
آؤ سارے مل کر اس کی اور بڑھائیں شان
سوہنا پاکستان ہمارا، سوہنا پاکستان

سپاہِ وطن کی خدمات کا اعتراف اور محبت کا اظہار ملاحظہ ہو:

یہ غازی جہاں بھی بڑھائیں قدم
وہاں کامیابی کے گاڑیں علم
تری فتح کی داستانیں رقم
ہے ناصرؔ سدا ان پہ رب کا کرم
بڑی رعب دار ان کی للکار ہے
سپاہِ وطن سے ہمیں پیار ہے

فیض الحسن ناصرؔ کا کلام حقیقت سے قریب اور جامع مفہوم لیے ہوئے ہے اور آپ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں:

اپنے وطن کے نظاروں سے لے جاتے ہیں کوسوں دور
پردیسیوں کے ویزے سارے ایک طرح کے ہوتے ہیں

۔۔۔

لاغر و ناتواں ہیں مریددوں کے تن
پیر کے جسم پر ماس ہی ماس ہے

شاعری سے اس حد تک لگاؤ ہے کہ ہر بات کو الفاظ کا پہناوا دے کربا آسانی اشعارمیں ڈھال لیتے ہیں:

شعر حسنِ بیاں کے چھلکتے ہوئے جام کا نام ہے
شعر دنیائے فن کی ستاروں بھری شام کا نام ہے
شعر ذہنِ رسا پر اُترتا ہے جب جب مچلتا ہے دل
شعر المختصر کشف و اِلقا و الہام کا نام ہے

چھوٹی اور بڑی بحر میں عمدہ کلام تخلیق کرتے ہیں� سہلِ ممتع کی مثال دیکھیں:

ہم سے اک بت بھی رام ہو نہ سکا
ہائے اتنا بھی کام ہو نہ سکا
ان کے آنے سے ایسا رشک ہوا
ہم سے کچھ انتظام ہو نہ سکا

اسی غزل میں ندرتِ خیال اور تعلّی دیکھیں:

بعد غالبؔ کسی بھی شاعر کا
شعر گوئی میں نام ہو نہ سکا
عیب گیروں نے سر دھنے ناصرؔ
میرے فن میں کلام ہو نہ سکا

زیرِ نظر کتاب میں جا بجا شاعر کی ریاضت اور فنی پختگی جھلکتی ہے۔ متعدد شعراء دو تین بحروں میں ہی مجموعہ کلام مکمل کرلیتے ہیں لیکن فیض الحسن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نا صرف معروف مستعمل بحروں میں کلام لکھا بلکہ نئی نئی بحریں بھی متعارف کروائی ہیں. علاوہ ازیں مشکل قافیوں کو اس خوب صورتی سے نبھایا ہے کہ کوئی بھی قاری یا شعر فہم داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ غزلیات میں ایسے قافیے اور ردیف استعمال کی ہے کہ شاید ہی کسی نے ایسی طبع آزمائی کی ہو، جیسا کہ ردیف میں چوٹ، باعث، کوچ، گڈ مڈ، تلذذ، ہنوز، سبوتاژ وغیرہ۔قافیوں میں تمھاریاں، اتاریاں، کھلاریاں، گزاریاں اور اس جیسے کئی اور دیگر منفرد قافیے برتے ہیں جو قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتے ہیں۔
طنز و مزاح سے بھرپور شاعری خال خال شعراء کے حصے میں آتی ہے۔ فیض الحسن بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ لکھتے ہیں کہ:

چار سو اہلِ ہوس بیٹھے تھے
بزمِ جاناں سے کلب یاد آیا
ایلوپیتھی کی دوا کھا کھا کے
جاں بلب کو بھی مطب یاد آیا

۔۔۔

شاعری اور صحافت میں تخاوت نہ رہا
مصرعوں میں نظر آتی ہے خبر کی صورت

۔۔۔

میرے دل میں ہے تیرے پیار کی شمع
گُل نہ کرنا یہ اعتبار کی شمع
عاجزی ہی میں ہے بھلا تیرا
مت جلا فخر و افتخار کی شمع
آ رہے ہیں وہ صبر کر ناصرؔ
بجھنے پائے نہ انتظار کی شمع

فانی زندگی کی کم آئیگی اور بے ثباتی بارے لکھتے ہیں:

تہہِ زمیں کہیں مٹی سے جا ملی مری خاک
جہاں سے آئی تھی آخر وہیں گئی مری خاک
میں ایک بار گیا تھا بتوں کی محفل میں
بس اتنا یاد ہے بیٹھا تھا، پھر اٹھی مری خاک

۔۔۔

نت نئے رنج و الم سے پاک ہو جائیں گے ہم
ایک دن راہِ بتاں میں خاک ہو جائیں گے ہم
راہِ الفت میں چلے تھے کتنے ذوق و شوق سے
ناصرؔ اب لگتا ہے عبرت ناک ہو جائیں گے ہم

فیض الحسن ناصرؔ نے اپنے اس مجموعہ کلام میں اپنی سیاسی و ادبی وابستگی کے پیشِ نظر چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کو خراجِ عقیدت اور عارف علی میر کی ادبی خدمات پر اشعار کی صورت خراجِ تحسین بھی پیش کیا ہے۔ شیریں سخن سے کچھ مزید انتخاب نذرِ قارئین کی ہے:

تصور میں تُو محوِ گفتگو ہے اور میں ہوں
تُو گویا سامنے ہے، روبرو ہے او رمیں ہوں
جدھر بھی دیکھتا ہوں تُو نظر آتا ہے مجھ کو
جہانِ رنگ و بو میں صرف تُو ہے اور میں ہوں
گزرتے ہیں مرے دن رات گویا گلستاں میں
خیالوں میں وہ زُلفِ مشکبو ہے اور میں ہوں
اگرچہ اس کی محفل میں کئی بیٹھے ہوئے ہیں
مگر لگتا ہے بس وہ شعلہ رو ہے اور میں ہوں
وہ مدحت گنگناتا ہوں جو لکھی تھی کسی کی
وہ مدحت زیبِ گلو ہے اور میں ہوں
نہ ساقی ہے، نہ پیمانہ، نہ ساغرہے، نہ مینا
بس اک ویرانہ ہے خالی سبو ہے اور میں ہوں

اتنی خوب صورت کتاب کا تحفہ دینے پر میں فیض الحسن ناصرؔ کا تہہ دل سے ممنون ہوں اور پہلے صفحہ پر دستِ ناصرؔ سے لکھے الفاظ میرے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت جناب فیض الحسن ناصرؔ کے علم و ہنر اور عمر میں برکت عطا فرمائے، آمین