کتاب کا نام اور سرورق دیکھ کر جو پہلا گمان ذہن میں آیا وہ بڑا بچکانہ سا تھا، یہی کہ شاید کوئی بچوں کے لیے کہانیوں کی کتاب ہے جس میں مختلف جانوروں کے کرداروں سے انسانوں کے لیے کوئی نصیحت ہوگی. عموماً انسان نصیحت سننے کا عادی نہیں ہے، مگر پھر ایک روز خیال آیا کہ جس کتاب کا اتنا چرچا ہے، اسے پڑھنا ضرور چاہیے. بس یہی سوچ کر کتاب منگوالی، کتاب پڑھنا شروع کی اور پھر کب آخری صفحے پر پہنچا محسوس ہی نہیں ہوا۔
مصنف اِرک آرتھر بلیئر (جارج آر ویل) 1903ء میں ہندوستان میں پیدا ہوئے، چار سال کی عمر میں انگلستان کا رختِ سفر باندھا اور پھر انہوں نے 1917ء میں باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا۔ جن دنوں میں جارج آر ویل کا یہ شاہکار ناول شائع ہوا ان دِنوں جنگِ عظیم دوم جاری تھی یعنی وہ دور 1945ء کا تھا۔ اب آپ اندازہ کریں کہ 1945ء میں شائع ہونے والا یہ ناول ہمارے حکمرانوں کی نفسیات کی کس طرح ترجمانی کرتا ہے، دنیا پر مسلط حکمرانوں کی نفسیات ہمیشہ سے ایک جیسی رہی ہے جو Divide and rule کے فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
عوامی طاقت کو تقسیم کرو اور ان پر مرضی کی حکومت کرو۔ نہ عوام اکٹھے ہوں اور نہ ہی وہ اپنے حق کی بات کریں، حکمران جب چاہتے ہیں، کسی بھی لیڈر یا ریاست کے خلاف نفرت اپنے عوام کے ذہن میں اتار دیتے ہیں اور پھر اسی نفرت میں انہیں مصروف رکھ کر ان کو خوب نچوڑتے ہیں، کیوں کہ اسی عمل سے وہ اپنے مفادات کو پروان چڑھاتے ہیں. نفرت پیدا کرنے والے یہ عناصر خود اعلیٰ منصب پر فائز ہو کر اس نفرت کو مزید ابھارتے ہیں تا کہ عوام ان کی عیش و عشرت اور عیاشیوں کو نہ دیکھ سکیں اور اپنی نفرت کی آگ میں جلتے رہیں اور یہی عوام اندھا دھند اعلیٰ عہدوں پر فائز لیڈروں کے مفاد کی خاطر اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے رہیں۔ ان کے بچوں اور خاندانوں کو پالتے رہیں۔ اس ناول میں جانوروں کے مختلف کرداروں کے ذریعے سے معاشرے میں ہونے والے ظلم و ستم اور نانصافی کو بیان کیا گیا ہے۔ ناول کی ابتداء انسانوں کی غلامی نامنظور سے شروع ہوتی ہے اور پھر جانوروں کی بغارت کے بعد ملنے والی آزادی کو کس طرح ڈر کے سائے میں پروان چڑھایا جاتا ہے، یہ سب ایک کہانی کی طرز میں پیش کیا گیا ہے۔
ناول کا مرکزی کردار نپولین (ایک سور) ہے جو اپنی قیادت میں جانوروں کو انسانوں سے آزاد تو کروا لیتا ہے مگر پھر وہ اور اس کے ساتھی سور اپنی عیش و عشرت اور عیاشیوں کو پورا کرنے کے لیے جانوروں کو خوش حالی کے سنہری خواب دکھاتے ہیں اور ان سے خوب محنت کرواتے ہیں. ان کی محنت سے حاصل ہونے والے ثمرات سے خود مستفید ہوتے ہیں اور اپنی نسلوں کی خوش حالی کے لیے ان ثمرات کا خوب استعمال کرتے ہیں. جو جانور محنت کرتے ہیں وہ اکثر بھوکے پیاسے رہتے ہیں، اپنے فارم کو خوش حال رکھنے کے لیے دن دگنی اور رات چوگنی مزدوری کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کو نہ تو چارہ اتنا ملتا ہے جو ان کی بھوک مٹا سکے اور نہ ہی صاف شفاف پانی جو وہ پی سکیں، البتہ گائیوں کے دودھ اور مرغی کے انڈوں سے ان کے لیڈرز سور، ان کی نسلیں، ان کا خاندان اور ان کے اردگرد موجود چاپلوس جانور خوب پلتے ہیں۔ عام جانور اپنے لیڈروں کی طرف سے بتائی گئی سچی جھوٹی کہانیوں پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں، ان کے لیڈر (سور) اس یقین کا بھرپورناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے مخالفین کی نفرت ان کے دلوں میں زندہ رکھتے ہیں تاکہ کوئی دُوسرا مخالف ان جگہ نہ لے لے۔ جانوروں کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے سات مقدس اصول بناتے ہیں:
1.کوئی بھی صورت حال ہو دو پیر پر چلنے والا دشمن ہے۔
2. کوئی بھی صورت حال ہو، چار پیروں یا پَروں والا دوست یے۔
3. کوئی جانور کپڑے نہیں پہنے گا۔
4. کوئی جانور بستر پر نہیں سوئے گا۔
5. کوئی جانور شراب نہیں پیے گا۔
6. کوئی جانور دوسرے جانور کو قتل نہیں کرے گا۔
7. تمام جانور برابر ہیں۔
درج بالا تمام اصول عام جانوروں کے لیے ہیں، جانوروں کے لیڈر سور ان اصولوں سے آزاد ہیں. وہ اپنے مفادات کی خاطر دو پیر والے بدترین دشمن انسانوں سے تجارت بھی کرتے ہیں، مخالفت میں چار پیروں اور پَروں والے جانوروں سے دشمنی بھی کرتے ہیں، اپنی زینت اور خوب صورتی کی خاطر ریشمی کپڑے بھی پہنتے ہیں، آرام دہ بستر کے مزے بھی لیتے ہیں، شراب کی محفلیں سجاتے ہیں، اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنے کے لیے دوسرے جانوروں کو بھرے مجمعے میں قتل بھی کرتے ہیں، حکمران ہونے کے ناطے خود کو فارم کے دوسرے جانوروں سے اعلیٰ و ارفع سمجھتے ہیں اور اپنی حفاظت کے لیے خونخوار کتے بھی رکھتے ہیں تاکہ دوسرے جانوروں پر ان کا خوف طاری رہے اور وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند نہ کرسکیں، فارم کے دوسرے جانوروں پر ان اصولوں کی پاسداری لازمی ہے ورنہ وہ غداری کے مستحق ٹھہریں گے اور چوک چوراہوں میں لٹکا دیے جائیں گے۔
سور جو لیڈروں کے کردار میں ہیں، وہ دوسرے جانوروں کو انسانوں کی غلامی سے ڈراتے ہیں اور ان سے کم خوراک میں زیادہ کام لیتے ہیں اور دوسرے اینمل فارمز کے مالکوں کو یہ بات جتلاتے ہیں کہ دیکھو کس طرح ہم نے اپنے مویشی خانے میں کم خوراک کے باوجود جانوروں سے زیادہ کام لیا ہے اور مربوط نظم و ضبط قائم کر رکھا ہے۔ اینمل فارم سوروں کی سلطنت میں جب تک کوئی طاقت ور جانور گھوڑا (بوکسر Boxer) اپنی بھرپور جوانی کے دنوں میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ محنت، لگن اور شوق سے دن رات حکمرانوں کے مفادات کی خاطر کام کرتا ہے وہ ہیرو ہوتا ہے مگر جیسے ہی وہ بیمار ہوکر بڑھاپے کو پہنچتا ہے، کم ظرف حکمران بجائے اس کی دیکھ بھال کے، اسے ذبح خانہ کے قصابوں کے حوالے کر دیتا ہے اور بدلے میں خوب پیسے کماتا ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو سیاست دان یا دیگر طاقتیں ٹشو پیپرز کی طرح استعمال کرتے ہیں اور ان کی طاقت سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں مگر ان کے فائدے کے لیے کچھ نہیں سوچتے اور نہ ہی اقتدار میں آکر ان کو اچھا مستقبل دیتے ہیں۔
آخر میں مصنف انسانوں اور سوروں کی ایک میٹنگ کرواتا ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اپنی طاقت کی حد تک اپنے سے کمزور پر ظلم و ستم کیا ہے۔ اسی میٹنگ میں انسان سوروں (جانوروں کے لیڈروں) کو دھوکا دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور منظر کو دیکھ کر دوسرے جانور یہ جاننے میں مشکل کا سامنا کرتے ہیں کہ دونوں میں سے اصلی سور کون ہے کیوں کہ ناول میں اگر انسان سوروں (جانوروں کے لیڈروں) کو دھوکا دیتا ہے تو سور اپنے ساتھی جانوروں کو دھوکہ دے کر خود عیش و عشرت کی زندگی جی رہے ہوتے ہیں۔
میں آپ قارئین کو سید علاؤالدین کا ترجمہ کردہ یہ ناول پڑھنے کے لیے ضرور کہوں گا کہ اس کے صرف 96 صفحات ہیں اور یہ صفحات ہمارے حکمرانوں کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔