برسوں کیا تلاش اسے کائنات میں
لیکن ملی وجود سے آوازِ گمشدہ
اس خوب صورت شعر کے خالق طاہرؔ حنفی کا مجموعہ کلام ”آوازِ گُم شُدہ“ ادبی خزانے میں قیمتی اضافہ ہے۔ شاعر بنیادی طور پر حساس اور شعور کا نام ہے. وہ معاشرے کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے، اپنے گردو نواح میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو الفاظ کاجامہ پہنا کر مختصر ترین پیرائے میں اشعار کی صورت بیان کر دیتا ہے جو بظاہر تو ایک شعر یا چند اشعار پر مشتمل غزل ہوتی ہے مگر حقیقت میں جذبات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا ہے۔ طاہرؔ حنفی کا شمار بھی اُن شعراء میں ہوتا ہے، جو دیکھتے ہیں یا محسوس کرتے ہیں، اسے رقم کر دیتے ہیں. ”آوازِ گُم شُدہ“ حنفی صاحب کا چھٹا شعری مجموعہ ہے. اس سے قبل ”شہرِنا رسا“، ”گونگی ہجرت“، ”خانہ بدوش آنکھیں“، ”یرغمالِ خاک“ اور ”رشکِ افلاک“ سے اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ یہ ان کی قابلیت اور مسلسل ریاضت کا ثمر ہے کہ ”آوازِ گُم شُدہ“ کی صورت نیا مجموعہ قارئین تک پہنچ پایا۔
اچھی شاعری کا حسن ہے کہ جو ایک بار پڑھیں توبار بار پڑھنے کو من کرتا ہے اور یہ خوبی طاہرؔ حنفی میں بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ قاری کی توجہ حاصل کرنے کا گُر جانتے ہیں. قبل ازیں موصوف کی جو تخلیقات زیرِ مطالعہ رہیں ان میں کمال کی شاعری پڑھنے کو ملی۔ ”آوازِ گُم شُدہ“ بھی تشنگانِ ادب کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں اور ہمیشہ کی طرح یہ تحفہ ہمیں حنفی صاحب کی جانب سے موصول ہوا۔ گو کہ یہ تحفہ ہم تک بہت تاخیر سے پہنچا لیکن کسی گلدستے کی طرح ترو تازہ پایا۔ کسی بھی مصنف کا یہ حق ہے کہ اس کی جانب سے کتاب ملے تو اس پر اظہار خیال کیا جائے، سو ہم نے بھی چند سطور اسی غرض سے رقم کر دیں۔
دورِ حاضر میں نوجوان نسل سمیت ایک طبقہ سوشل میڈیا کے گرداب میں پھنس چکا ہے. ایسے میں شاعری کے ذریعے اردو ادب میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے پر طاہرؔ حنفی مبارکباد کے ساتھ تحسین کے مستحق بھی ہیں۔ یوں تو سارا کلام ہی قابلِ داد ہے تا ہم یہاں با ذوق قارئین کے لیے کچھ انتخاب پیشِ خدمت ہے. نعتیہ کلام ملاحظہ ہو:
گوہرِ اشک یہ جی بھر کے لٹاتے جاتے
ہم کو طیبہ میں جو سرکار بلاتے، جاتے
اُن کے دربار میں اک بار جو جاتے طاہرؔ
قصہءِ درد ہم اشکوں سے سناتے جاتے
ایک اور عمدہ شعر دیکھیں:
جب تصور لے گیا شامِ غریباں کی طرف
طاہرؔ اشکوں کی رواں پھر سے جھڑی ہوتی رہی
جب اپنے خیالات کو الفاظ کی مالا میں پرو کر صفحہ ِ قرطاس پر منتقل کرتے ہیں تو پڑھنے والے پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں اِظہار کی لطافت، جذبات کی صداقت اور دل آفرینی قابل توجہ ہے:
ہم اپنے حق میں کوئی کیا دلیل دیتے
ہمارے جرم تھے ثابت سراغ سے پہلے
۔۔۔
لگائی ہے کس نے ندائے فروخت
مرا جسم بھی ہے برائے فروخت
۔۔۔
تمھارے وصل کی راتیں تو صرف مہماں تھیں
تمھارے ہجر کا موسم مرا مقدر تھا
خیال کی پختگی کے ساتھ ساتھ الفاظ کا چناؤ بڑے احسن اندازمیں کرتے ہیں:
موسم ہے شوخ شوخ تو ماحول دلنشیں
طاہرؔ تمہاری بستی اداؤں کی زد میں ہے
۔۔۔
میں نے تو بس ہاتھ اٹھایا اس کی خاطر
اس کے ہجر کا تالا ٹوٹا جانے کیسے
۔۔۔
جب اہلیہ محترمہ کی یاد میں قلم اٹھایا ہیں تو لکھتے ہیں:
زمیں سے آسماں تک ڈھونڈتا ہوں
خدا جانے کہاں پر کھو گئی ہو
طاہرؔ حنفی مشکل ردیفیں بہت خوب صورتی سے نبھاتے ہیں:
بے سمت ہواؤں کا خیالوں کا شکنجہ
یہ چاروں طرف میرے اجالوں کا شکنجہ
۔۔۔
قیامت وہ لائے گی خوابوں کی دستک
یہ سب دکھ جگائے گی خوابوں کی دستک
چند مزیداشعار میں خیال کی چاشنی دیکھیں:
یوں بھی تو جی نہیں پاؤں گا تمھارے بن میں
لینے آئے ہو میری جان، چلو لے جاؤ
۔۔۔
سن اے غمِ دلدار کلیجے میں اتر جا
ہے تیر یا تلوار کلیجے میں اتر جا
اب یاد کی برچھی ہی سلامت نہیں طاہرؔ
اب کس سے کہوں یار! کلیجے میں اتر جا
یوں تو سارا کلام ہی خوب صورت ہے تا ہم دل کو چھو لینے والی یہ غزل ملاحظہ فرمائیں:
قطرے کی تمنا میں سمندر تو ہوا ہوں
تجھ کو میں بہرحال میسر تو ہوا ہوں
کہتے تھے مجھے مسئلہ گاؤں کے سبھی لوگ
ایسے ہی سہی پر میں اجاگر تو ہوا ہوں
اب میرے مقابل ہیں سبھی میں سے دلاور
میں جنگ میں دشمن کے برابر تو ہوا ہوں
یعنی کہ بنایا گیا ناسور کی خاطر
یعنی میں کسی زخم کا نشتر تو ہوا ہوں
تنقید وہ کرتا ہے تو کرنے دو اسے تم
طاہرؔ میں اسے ایسے ہی ازبر تو ہوا ہوں
مقطع غزل کا نچوڑ ہوتا ہے، ”آوازِ گُم شُدہ“ میں شامل چند نمونے ملاحظہ ہوں:
میں نے کسی کی یاد میں دل کی سجائی بزم
طاہرؔ مگر یہ شام سہانی نہ ہو سکی
۔۔۔
طاہرؔ اسے دیکھیں گے خیالوں میں مسلسل
تصویر اسے اپنے تصور سے کریں گے
۔۔۔
واپس کیسے جائے طاہرؔ
جھیل میں چاند اتر بیٹھا ہے
۔۔۔
طاہرؔ اب مے خانے سے نسبت نہیں
مے سے تائب، مے کشی سے دور ہیں
۔۔۔
تم وہ پہلے سے طاہرؔ کہاں اب رہے
چھوڑ جانا تمھارا ضروری ہے اب
۔۔۔
طاہرؔ مقامِ فخر ہے، سجدے میں سر کو رَکھ
کل رات ایک شخص نے بھیجا تجھے سلام
چھوٹی بحرمیں ایک اور خوب صورت غزل دیکھیں:
کچھ نہ کچھ تو سچائی تھی
آنکھ مری جو بھر آئی تھی
شہر میں ایک ہی میرا گھر تھا
جس پہ عاشق تنہائی تھی
صبر نے دامن تھام لیا تھا
ویسے زیست یہ گھبرائی تھی
اس کے چہرے پر ہیں جھریاں
وہ جو حسن پہ اترائی تھی
کس نے کس کی یاد کی چوڑی
کس کے دل کو پہنائی تھی
طاہرؔ اک گھر میں تھا ماتم
اور اک گھر میں شہنائی تھی
۔۔۔
احساس سے نرمی سے تدبر سے کریں گے
حیراں تجھے ہم تیرے تخےّر سے کریں گے
پر اپنی جبیں پہ کوئی اک”داغ“سجا کر
ہم صاف یہ دِل نورِ تشکرّ سے کریں گے
۔۔۔
کچھ نہ کچھ تو ہو لینے دو
زانو پہ اب سو لینے دو
اشکوں میں بھر پھول کھلیں گے
غم میں اشک پرو لینے دو
دو قطعات ملاحظہ ہوں:
تتلیاں خود کشی پہ آمادہ ہیں
اس قدر ہے مٹھاس پھولوں میں
خواب دیکھیں گی شاہزادوں کے
لڑکیاں سو رہی ہیں جھولوں میں
۔۔۔
مرنے والے سے بھی مرنے سے قبل
مرنے کا ٹیکس لیا جائے گا
موت کی پھر وہ کریں گے تصدیق
پھر یہ اعلان کیا جائے گا
جس غزل سے عنوان کا انتخاب کیا گیا اسے پڑھیں اور شاعر کو خیال کی داد دیں:
نکلے گی اب حدود سے آوازِ گُم شُدہ
رسموں سے اور قیود سے آوازِ گُم شُدہ
آؤ کسی پہ دم کریں آنکھوں کو موند کے
شاید ملے درود سے آوازِ گُم شُدہ
گھبرا گئی نہ ہو کہیں، نکلی جو ایک دن
طاری کسی جمود سے آوازِ گُم شُدہ
برسوں کیا تلاش اُسے کائنات میں
لیکن ملی وجود سے آوازِ گُم شُدہ
آئندگاں کی سمت سفر طے کرے گی اب
اِک راز ہست و بود سے آوازِ گُم شُدہ
طاہرؔ کیا بتاؤں تجھے کرتی ہے کتنا پیار
اِک زخمِ بے وجود سے آوازِ گُم شُدہ
طاہرؔ حنفی نے غزل اور نظم کے ساتھ ساتھ نثری نظموں میں بھی خوب طبع آزمائی کی ہے. ”آوازِ گُم شُدہ“ میں چھ نثری نظمیں شامل ہیں اور کوئی بھی نظم پڑھنے والے کو اپنے سحر میں لے لیتی ہے اور مکمل پڑھے بغیر آگے نہیں بڑھنے دیتی۔
آخرمیں جنابِ طاہرؔ حنفی کو ان کے شعری مجموعے کی مبارک دیتے ہوئے دعا ہے کہ ان کی شاعری کو عروج ملے اور وہ اسی طرح مزید اچھے اچھے شعروں سے اپنی تخلیقات منظر عام پر لاتے رہیں، آمین