”جُھوٹے رُوپ کے درشن“، راجہ انور کی سحر انگیز داستانِ عشق– محمد عمران اسحاق

”جُھوٹے رُوپ کے درشن“ معروف دانشور، صحافی ، ادیب اور سیاسی کارکن راجہ انور کی ایک ایسی سحر انگیز داستانِ عشق ہے جو قاری کو اپنے اثر میں جکڑ لیتی ہے. خاص طور پر مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباء و طالبات کو، جو اس کتاب کو پڑھتے ہیں اور پھر اس کی کیفیت کو محسوس کرتے ہیں. علاوہ ازیں مختلف جامعات سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات جو اپنی پریکٹیکل اور پروفیشنل لائف میں مگن ہیں، ان کے سامنے جب یہ کتاب آتی ہے تو وہ اِسے پڑھتے ہوئے خیالوں کی دنیا میں کھوکر اپنی طالبعلمی کی زندگی میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پر اپنے گزرے ہوئے لمحات کی حسین یادوں کو کریدنے لگتے ہیں. ان کریدی ہوئی یادوں کے سہارے وہ دوبارہ جی اٹھتے ہیں اور راجہ انور کی داستانِ عشق پر واہ واہ کرنے لگتے ہیں۔
محسوس کریں تو احساس ہوتا ہے کہ محبت کرنے والے انسان کی کیفیات کو بیان کرنے میں راجہ انور نے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے یونیورسٹی کے تقریباً تمام عاشقوں کی دلی کیفیات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے اور آخری صفحے کے اختتام پر یہ تاثر چھوڑا ہے کہ بیٹا پہلے وقتوں کے لوگ بھی بھرپور محبت کیا کرتے تھے، بس اس کا برملا اظہار میں نے کیا، جو آپ اس کتاب میں پڑھ چکے ہیں۔
”جُھوٹے رُوپ کے درشن“، راجہ انور کے پنجاب یونیورسٹی میں اپنی کلاس فیلو محبوبہ کو لکھے گئے خطوط کا مجموعہ ہے جنہیں بعد میں راجہ صاحب نے خود شائع کیا۔ مصنف نے ان خطوط میں، زمانہ طالب علمی میں پلنے والی محبت کی لازوال داستان کو دنیا پر آشکار کیا ہے. کتاب میں محبت کی ایک درد ناک کہانی بیان ہوئی ہے، جسے پڑھتے پڑھتے قاری اتنی گہرائی میں چلا جاتا ہے کہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ خود اسی پر بیت رہا ہے۔ راجہ انور صاحب کی اس شاہکار کتاب انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے کہ محبت میں اس قدر الم اٹھانا پڑتا ہے۔ محبت میں محبوب کا رقیب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے، کیا حالت ہوتی ہے. مگر اس سے قطع نظر راجہ صاحب اپنے ان خطوط میں محبت کا خوب بھرم رکھتے ہیں اور ان کو عوام الناس کے سامنے پیش کرتے ہوئے بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
مصنف نے بات یونیورسٹی کی سیاست سے شروع کی ہے جو رفتہ رفتہ بے انتہا محبت کی کہانی میں بدل جاتی ہے. پھر خطوط کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور محبوبہ کی شادی تک جاری رہتا ہے. محبوبہ تین لوگوں کی محبت میں کنفیوژن کا شکار ہے، جن میں ایک اُس کا کزن ہے، جسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں. دوسرا خرم ہے جو گاڑی، بنگلہ، پیسہ رکھنے والا مالدار عاشق ہے اور محبت کا دعوے دار ہے. تیسرا مصنف خود ہیں جو سوائے لکھنے کے کچھ نہیں کرتے اور اپنی محبوبہ کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں. راجہ صاحب کے ساتھ محبوبہ بھی خوب محبت کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور جان تک نچھاور کرنے کا وعدہ کرتی ہیں مگر آخر میں گاڑی، بنگلہ اور دولت کی جیت ہوجاتی ہے اور محبوبہ خرم کے عقد میں بندھ جاتی ہے.
راجہ انور نے اپنی اس کتاب میں ہاسٹل کی زندگی کو بھی خوب صورت انداز میں پیش کرتے ہیں اور محبت میں ساتھ دینے والے دوستوں کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح وہ تکلیف کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے کچھ تلخ حقائق بھی کتاب میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ کے دوران معاشی اور معاشرتی نظام پر تنقید کی صورت میں مصنف کا دکھ بھی قاری اپنے دل میں محسوس کرسکتا ہے۔ کتاب کے انتساب میں راجہ انور لکھتے ہیں:
”نئی نسل کے نام، جو ہمارے دکھوں کا حساب چکائے گی.“
نامور شاعر و ادیب احمد ندیم قاسمی اس کتاب کے نے دیباچہ میں لکھا:
’’میرا یقین ہے کہ جو لوگ انسانوں کے جبلی اور بنیادی جذبات کی قدر کرنا نہیں جانتے وہ ادھورے لوگ ہوتے ہیں چاہے وہ بہت بڑے مصلح ہوں، چاہے بہت بڑے انقلابی۔‘‘
کتاب سے کچھ خوب صورت جملے قارئین کی نذر:
”افواہ صحرا میں برسی بارش کی طرح جلد ہی اپنا اثر کھو دیتی ہے.‘‘
”اصل میں ہمارے لوگ بڑے ہمدرد اور غمگسار واقع ہوئے ہیں، ہمیشہ دوسروں کی برائی خلوص سے کرتے ہیں.‘‘
”حسن تو ایک اضافی اور بے معنی شے ہے، میری آنکھ میں نہ تمہارے جسم میں، بلکہ ان کے درمیان پیدا ہونے والے احساس کا نام ہے.‘‘
”ہماری سوسائٹی ان باتوں ہر شرمندہ نہیں ہوتی جن پر ہونا چاہیے اور جن پر شرمندہ نہیں ہونا چاہیے وہاں ہو جاتی.‘‘
”آؤ کوئی اور بات کریں جو تلخیِ فردا کو شیرینیِ امروز میں بدل دے، جو تمہارے لمس سے جاوداں ہو جائے.‘‘
الغرض یہ کمال کی کتاب ہے کہ ایک بار پڑھنا شروع کریں تو مکمل کیے بنا نہیں رکھ سکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں