ڈاکٹرآصف محمود جاہ کسٹم آفیسر، میڈیکل ڈاکٹر، سماجی کارکن اور مصنف ہیں۔ آپ 25 کے قریب کتابیں تصنیف کیں. وہ مختلف اخبارات کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں۔ 2015ء میں آپ کو ستارہ امتیاز اور 2021ء میں آپ کو ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا.
زیرِ نظر سفر نامہ ”رب رحمان کے مہمان“ حج کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات پر مشتمل ہے. اس سے قبل میں نے ایک مختصر سی کتاب ”داستان عشق و سفر“ جس کی مصنفہ فرح مصباح ہیں، کا مطالہ کیا۔ مصنفہ نے اپنی کتاب میں عمرہ کی روداد بیان کی ہے. اس سفر نامہ نے میرے اندر تڑپ پیدا کی کہ ان مقدس مقامات کے بارے میں مزید جانا جائے. میری خوش قسمتی کہ میرے پاس جناب ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی کتاب ”رب رحمان کے مہمان“ موجد تھی۔ میں نے اس کتاب کو اٹھایا اور پڑھنا شروع کر دیا. اس کتاب نے مجھے اپنے سحر میں ایسا جکڑا کہ جب تک کتاب ختم نہیں ہوئی، میں کسی اور کتاب کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا پایا. یہ قدرتی امر ہے کہ ہر مسلمان کو ان مقدس شہروں سے عقیدت ہوتی ہے، وہ ان کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیشہ بے تاب رہتا ہے۔ حج کا سفر، اسلام کا خوب صورت ترین فریضہ ہے۔ یہ دراصل سفرِ عشق ہے۔ حج ایک ایسا فریضہ ہے جس میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کا ہر جزو شامل ہوتا ہے۔ جس کو مناسکِ حج ادا کرنے کا موقع مل جائے، وہ خوش قسمت ہے۔ یہ حرمین شریفین کے سفر کی اصل سوغات ہے.
ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے اپنی کتاب ”رب رحمان کے مہمان“ کی شروعات ان اشعار سے کی ہے:
شکر ہے تیرا خدایا، میں تو اس قابل نہ تھا
تو نے اپنے گھر بلایا، میں تو اس قابل نہ تھا
اپنا دیوانہ بنایا، میں تو اس قابل نہ تھا
گرد کعبے کے پھرایا، میں تو اس قابل نہ تھا
اس سفر نامے میں مصنف اپنی روداد بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ان کے مقدر جاگے اور اللّہ تعالیٰ نے اچانک انہیں اپنے در پر بلا لیا۔ حج کی قرعہ اندازی میں نام نہ ہونے کہ باوجود ان کے سفر کا آغاز کیسے ہوا… پھر وہ اپنی تمام تر روداد سناتے ہیں کہ کس طرح پاکستان ائیرپورٹ سے جدہ ائیرپورٹ پر اترے۔ کس طرح انہوں نے خانہ کعبہ کو پہلی نظر میں دیکھا. اس دوران انہوں نے نہ صرف اپنی ظاہری کیفیت بیان کی بلکہ اپنی باطنی کیفیت سے بھی قارئین کو آگاہ کیا۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ اپنے اس سفر نامے میں اپنی داخلی کیفیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کس طرح بیت اللہ کا طواف کرتے کرتے وہ خود کو خلیل اللہ کے دور میں پاتے ہیں کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے اللّہ کا گھر بنایا.
”خلیل اللہ نے اللہ سے درخواست کی، یا اللہ تیرا گھر تو بنا رہا ہوں مگر ادھر کون آئے گا؟ اس بے آب وگیاہ بستی میں کون آ کر تیری عبادت کرے گا۔ اللہ نے کہا: میرے خلیل تسلی رکھ، تُو آواز لگا۔ میں تیری آواز کو رہتی دنیا کی تمام نسلوں تک پہنچاؤں گا۔ میرے خلیل تیرا بنایا ہوا گھر قیامت تک امن وچین، راستی اور ہدایت کا مرکز و محور اور منبع رہے گا۔ اس کو دیکھنے کے متلاشی، اس کے ذرے ذرے کو آنکھ میں بسانے والے، اس کو چومنے والے، اس کے ذرے ذرے سے محبت کرنے والے، فرزانے، دیوانے، دنیا کے کونے کونے سے آئیں گے۔ اس کا دیدار کر کے، اس کو آنکھوں میں بسا کر ابدی سکون اور چین پائیں گے.“
دورانِ طواف وہاں کے مناظر بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مصنف اپنے محسوسات کا ذکر یوں تحریر کرتے ہیں:
”اللہ اکبر اور الحمدللہ کی صداؤں سے فضا گونج اٹھتی ہے۔ اللہ آسمان سے اٹھ کر اپنے گھر کعبہ میں آگیا ہے۔ اپنے بندوں کو عاجزی کرتے، اپنی بڑائی بیان کرتے، اپنے آگے روتے، کرلاتے، سسکیاں بھرتے اور گناہوں کی معافی طلب کرتے دیکھ کر فرشتوں کے سامنے تفاخر کا اظہار کر رہا ہے اور وعدہ کر رہا ہے کہ میرے فرشتوں گواہ رہنا، میں نے ان سب کو بخش دیا۔ سب کے خطائیں معاف کر دی ہیں۔ اللہ کے مہمانوں کی اللہ کے گھر آکر خوب پذیرائی ہوتی ہے۔ کھانے یا پینے کی طلب ہو تو خود مل جاتا ہے۔ کسی نہ کسی طرف سے آ جاتا ہے۔ راستہ بھول جائے تو کوئی خود بخود ہی سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے.“
سعی کرتے ہوئے تو ڈاکٹر آصف اپنے تخیل میں اماں حاجرہ کو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لیے پانی ڈھونڈتے ہوئے صفا و مروہ کی پہاڑیوں پر ڈورتے دیکھتے ہیں۔
جب مصنف مسجدِ نبویﷺ میں داخل ہوتے ہیں تو کچھ ان الفاظ میں اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں:
”مسجد نبویﷺ میں چار سو روحانیت ہی روحانیت ہے۔ بابِ سلام سے داخل ہوں، بابِ صدیق سے داخل ہوں، باب اسمٰعیل سے اندر جائیں، بابِ جبرائیل کا رخ کریں، جس بھی گیٹ سے داخل ہوں روحانیت آپ کو گھیر لے گی۔ آپ جوں ہی مسجد نبوی میں داخل ہوں، زیادہ سے زیادہ درود شریف کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے جائیں تو روحانیت سکونیت آپ پر طاری ہو جائے گی۔ آپ محسوس کریں گے کہ آپ ایسی جگہ آگئے ہیں جہاں اللہ کی رحمت کے آثار برس رہے ہیں۔ جب بندہ باب الاسلام سے سلام کرنے حاضر ہوتا ہے تو عجیب سماں ہوتا ہے۔ بندہ اپنی قسمت پر نازاں و فرحاں ہوتا ہے۔ اللہ نے اس دنیا کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر بنایا۔ آپﷺ کے روضہ مبارک پر آ کر، درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے، اپنی عرضداشتیں، اپنی گزارشیں اللہ کے ہاں پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ آنسوؤں کا نذرانہ لے کر جب بارگاہِ رسالتﷺ میں پیش ہوتا ہے تو اپنی کم مائیگی کا، بے بسی کا، عاجزی کا اور گنہگاری کا بہت احساس ہوتا ہے۔ بندہ اپنے آپ کو بہت اچھا بھی محسوس کرتا ہے کہ اتنی کم مائیکی، بے چارگی، گنہگارگی اور عاجزی کے باوجود بارگاہ رسالت میں حاضری کی اجازت دی ہے۔“
اس سفر نامہ میں مصنف قاری کو ان تمام ضروری مسائل سے آگاہ کرتے ہیں جو کہ حج کے لیے اہم ہیں اور تمام موقعوں پر ان کی راہنمائی کرتے ہیں. آصف محمود صاحب حج کے موقع پر کام آنے والے مفید مشوروں کے ذریعے رقم اور وقت بچانے کے طریقے بھی بتاتے ہیں جن سے مناسکِ حج ادا کرنے میں آسانی ہوتی ہے.
ڈاکٹر آصف دورانِ حج نہ صرف اپنی خارجی کیفیت کو بیان کرتے بلکہ اپنے باطنی جذبات و احساسات کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ اس سفر نامہ میں وہ ایک گائیڈ کی حیثیت سے قارئین کی رہنمائی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح ڈرائیوروں سے نمٹنا ہے جنہوں نے حج کے دنوں میں کرایہ دس گناہ بڑھا دیا ہوتا ہے. یہ جان کر نہایت ہی افسوس ہوتا ہے کس طرح مسلمانوں کے اتنے مقدس مقامات پر بھی لوگ لوٹنے سے باز نہیں آتے اور حاجیوں کے لیے مشکلات بڑھاتے ہیں۔ اس حج کے سفر میں اللّہ پاک حجاج کرام کو اتنی ہمت سے نوازتا ہے کہ وہ ان سب کا بخوشی مقابلہ کرتے ہیں اور کسی سے بھی کوئی شکایت نہیں کرتے، بلکہ اپنی قسمت پر نازاں ہوتے ہیں کہ اللّہ پاک نے ان کو اس عظیم فریضہ کے لیے چنا۔ جہاں عازمین حج کو اتنی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے وہیں حجاج اکرام کی آسانی کے لیے سعودی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر بھی کرتے ہیں. اس کتاب میں اُن تمام زیارتوں کے بارے میں بھی بیان کیا گیا جن کا زیادہ تر حجاج صاحبان کو علم نہیں ہوتا یوںعازمینِ حج کے لیے یہ سفرنامہ بہترین گائیڈ بُک ثابت ہو سکتا ہے. ساتھ ہی اس کتاب میں مصنف نے یہ بھی بتایا ہے کہ حج کے دوران ادا کیے جانے والے مناسک کس وجہ سے فرض کیے گئے اور ان سے انسان کیا سیکھتا ہے؟
یہ کتاب اس قدر دلچسپ ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ قاری خود بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے. اس کتاب کی ایک یہ بھی خاصیت ہے کہ اس کا زیادہ تر حصہ خانہ کعبہ اور مسجدِ نبویﷺ میں بیٹھ کر لکھا گیا ہے جس سے اس کتاب کو پڑھ کر قاری کے اندر ان مقدس مقامات پر جانے کی تڑپ اور زیادہ بڑھ جاتی ہے. میری دعا ہے کہ
اللّہ پاک ہر مسلمان کو یہ اہم فریضہ ادا کرنا نصیب فرمائے، آمین