محمود شام پاکستان کے ان گنے چنے صحافیوں میں شامل ہیں جن کاتجربہ اس قدر زیادہ ہے کہ شاید ہی کوئی ان کی ہم سری کا دعویٰ کر سکے. ان کی صحافتی اور ادبی خدمات بھی بے پناہ ہیں. انھوں نے اردو ادب کے ذخیرہ نظم و نثر میں گراں قدر اضافے کیے ہیں. ان کی زیر نظر کتاب ”رُوبرُو“ اِسْمْ با مُسَمّیٰ ہے. کتاب کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں:
”1969ء میں 29 سال کی عمر میں ہفت روزہ اخبارِ جہاں کی طرف سے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے قائدین سے دس سوالات کے جواب لینے نکلا تھا. سب بہت خلوص سے ملے تھے.“
اس کتاب میں کل 53 انٹرویوز شامل ہیں جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے مختلف سیاسی راہنماؤں سے 1969ء تا 1977ء لیے گئے ہیں. چند ایک کو چھوڑ کر سب کے سب انٹرویوز سیاسی راہنماؤں کے ہیں. کچھ شخصیات کے متعدد انٹرویوز بھی کتاب کا حصہ ہیں. سب سے زیادہ وقت انھیں شاید ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے دیا، یا پھر ان کی مختلف سیاسی و قومی حیثیتوں میں ان کے افکار و خیالات جاننے کے لیے ان کے اتنے انٹرویوز کیے گئے ہیں. اس کتاب میں شامل ان کے انٹرویوز کی تعداد چھ ہے جو بالترتیب 1969ء، 1971ء، 1973ء اور 1977ء میں لیے گئے ہیں.
محمود شام صاحب نے پہلا انٹرویو پاکستان کے سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی، جو نظامِ اسلام پارٹی کے قائد بھی تھے، کا کیا تھا مگر افسوس ہے کہ وہ انہیں دستیاب نہ ہو سکا اور اس کتاب میں ایک اہم انٹرویو شامل ہونے سے رہ گیا. محمود شام صاحب نے انٹرویوز کی خاطر دور دراز کے سفر کیے ہیں. بلاشبہ شام صاحب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے دور افتادہ مقامات تک پہنچ کر اور سیاسی راہنماؤں کے خیالات قلمبند فرما کر ایک عظیم قومی خدمت سرانجام دی ہے. رواں اور شستہ اسلوب کے ساتھ ساتھ منظر نگاری بھی ان کی تحریر کے محاسن میں شامل ہے جس کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں:
”ایک مقامی ہوٹل کی نویں منزل کے آخری کمرے میں فضل القادر چوہدری صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی. اس وقت وہ سفید کُرتے اور سفید پاجامے میں ملبوس تھے. آج بہت دنوں بعد وہ ہمارے قابو میں آئے. اس سے پہلے پنڈی میں ان سے ملاقات ہوئی تو وہ ہمارے انٹرویو سے بال بال بچ گئے.“
انھوں نے مشرقی پاکستان کی وہ لاجواب منظر کشی کی ہے کہ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جب اپنوں کی نادانیاں اور دشمنوں کی مکاریاں یاد آنے لگتی ہیں جن کی وجہ سے ہمارا مشرقی بازو ہم سے جدا ہوگیا.
وہ لکھتے ہیں کہ ”فضاؤں میں بسی دھان کی خوشبو دل میں اترے جا رہی ہے. تنگائیل 50 میل دور رہ گیا ہے. سرسبز کھیتوں اور ہرے پانیوں میں گھری اردو غزل کے محبوب کی تنگ کمر کی طرح بل کھاتی سڑک پر مشرقی پاکستان میں اردو کے شاعر اور فلمساز سرور بارہ بنکوی کی شیور لیٹ تیز تیز دوڑ رہی ہے. سڑک کے ساتھ ساتھ پانی ہے یا سونا اگلتے کھیت اور دریا اپنے دامن میں انسانوں کو بسائے جھونپڑیاں مغربی پاکستان کی طرح ایک چپہ بھی غیر آباد نہیں. کھیتوں کی آغوش بھری ہوئی ہے.“
وہ مولانا شاہ احمد نورانی کا انٹرویو لکھتے ہیں تو آغاز قرآن پاک کی آیت سے ہوتا ہے اور اس کے بعد مولانا کے فلیٹ کے بیرونی حصے کی منظر کشی بہترین اسلوب میں پیش کرتے ہیں.
نوڈیرو کا منظر وہ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: ”اب ہم نوڈیرو کے موڑ سے گزر رہے تھے جس کے ایک طرف بھٹو صاحب کا آبائی گاؤں ہے جہاں انہوں نے عید کی نماز پڑھی اور ووٹ ڈالا اور دوسری طرف بھٹو صاحب کا پیدائشی گاؤں ہے جہاں ان کے والدین کی آخری آرام گاہیں موجود ہیں. نہر کے دوسری طرف سے جیے بھٹو کی صدا آرہی ہے اور میں پوچھ رہا ہوں کہ پیپلز پارٹی نے پہلے سے کوئی ایسا آئینی خاکہ بنا رکھا ہے جسے اسمبلی میں پیش کیا جائے؟ بھٹو صاحب جواب دے رہے ہیں.“
اس کتاب سے جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا نقطہ نظر واضح ہو جاتا ہے وہیں وطنِ عزیز اور اس کے مسائل کے بارے میں ان کے افکار و خیالات سے آگاہی بھی ہوجاتی ہے. محمود شام نے نہایت واضح، مدلل اور رواں انداز اپناتے ہوئے اہم ترین سوالات، سیاسی لیڈروں کے سامنے رکھے ہیں اور انھیں بہت خوب صورتی سے تحریری شکل دی ہے جو انٹرویو کے مروجہ اسلوبِ تحریر سے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ بہتر اور جاندار دکھائی دیتی ہے. میجر جنرل سرفراز خان کے انٹرویو سے پہلے نہایت منفرد اور اعلٰی انداز میں ان کا تعارف پیش کیا گیا ہے. ان کا قلم کس قدرِ دلفریب انداز میں گلکاریاں کرتا چلا جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
”کراچی ایئرپورٹ پر مجھے ایک وجیہہ اور مدبر مسافر پر شک پڑا کہ کہیں یہی وہ شخصیت تو نہیں ہے جن سے ملنے کے لیے میں لاہور جا رہا ہوں. طیارے میں وہ شاید مخصوص حصے میں بیٹھے تھے اس لیے دوبارہ انہیں لاہور ایئرپورٹ پر دیکھا تو کچھ شک کو تقویت ملی اور شاہ جمال روڈ پر مغلیہ طرز کی محرابوں والے ایک بنگلے میں بیٹھے ہوئے میں نے جنرل سرفراز خان سے معلوم کیا کہ آپ پرسوں کراچی سے تو تشریف نہیں لا رہے تھے.“
یہ کتاب ہمارے سیاسی افق کی واضح منظر کشی کرتی ہے جس میں گزشتہ 25 سال سے کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی. راہنماؤں کے بیانات بھی ملتے جلتے ہیں، اعلانات اور وعدے بھی ہنوز وہی ہیں البتہ عامۃ الناس کی حالت تشویشناک حدود تک جا پہنچی ہے. کتاب کا انتساب متحدہ پاکستان کے نام ہے جو 1971ء میں دو لخت ہو گیا تھا. اس کتاب میں مشرقی پاکستان کے کئی اہم سیاسی راہنماؤں کے انٹرویو خصوصیت کے ساتھ بہت اہمیت کے حامل ہیں. کتاب میں پوچھے گئے سوالات کی بازگشت سرزمینِ پاکستان پر ہنوز گونجتی محسوس کی جا سکتی ہے. گو ان سوالات کو پوچھے ہوئے نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے البتہ بقول محمود شام ”سوال اب بھی جوابات کی تلاش میں ہیں.“
کتاب میں شامل انٹرویوز سے متحدہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی راہنماؤں کے افکار و خیالات سے آگاہی حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی و سماجی خدمات بھی واضح ہوجاتی ہیں. یہ کتاب ہماری سیاسی تاریخ کا اہم جزو ہے. اس کتاب کا باالاسیعیاب مطالعہ ہر پاکستانی اور خصوصاً سیاست سے متعلقہ افراد کو ضرور کرنا چاہیے اور خود احتسابی کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ سابقہ غلطیوں سے سبق اندوز ہونا چاہیے تاکہ ہم اس منزل کی طرف گامزن ہو سکیں جس کا خواب قائداعظم محمد علی جناح اور تحریکِ پاکستان کے دیگر اکابرین نے دیکھا تھا. یہ کتاب علامہ عبدالستار عاصم کے موقر ادارے ”قلم فاؤنڈیشن“ سے شایع ہوئی ہے. بلاشبہ یہ ادارہ اعلٰی اور معیاری کتب کی اشاعت کے حوالے سے ایک خاص مقام کا حامل ہے جس کے لیے اس ادارے کے اراکین مبارک باد اور توصیف کےمستحق ہیں.
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق