زینب اور زہرا ڈائننگ ٹیبل کے گرد بیٹھے عمار بھائی کا شدت سے انتظار کر رہی تھیں کہ کب بھائی سکول سے آئیں اور ہم سب مل کر کھانا کھائیں۔ بابا بھی سوچ رہے تھے کہ کیا وجہ ہے اب تک عمار بیٹا سکول سے واپس گھر نہیں پہنچا۔ اسی اثنا میں روڈ سے سکول وین کا ہارن سنائی دیا۔ دونوں بچیوں نے شورمچا دیا، ”بھائی آ گئے، بھائی آ گئے۔“
عمار بیٹا گھر میں داخل ہوا تو بلند آواز میں سب کو السلام علیکم کہا۔ جواب میں زینب اور زہرا نے ایک ساتھ ”وعلیکم السلام بھائی“ بولا اور کھانے کی میز پر بھائی کا انتظار کرنے لگے۔ عمار ہاتھ منہ دھو کر کھانے کھانا کھانے پہنچا تو بابا نے پوچھا: ”بیٹا! خیریت تو تھی آج آپ سکول سے بہت دیر سے گھر پہنچے؟“
عمار نے کچھ تھکے ہوئے انداز میں جواب دیا: ”بابا دراصل روڈ پر اس قدر ٹریفک تھی اور لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ بس کچھ نہ پوچھیں۔ رہی سہی کسر پانی کے ٹینکروں نے پوری کر دی اور ہماری وین آہستہ آہستہ بلکہ یوں کہیے کہ رینگتے ہوئے گھر پہنچی ہے۔“
عمار کی بات سن کر بابا کچھ سوچ میں پڑ گئے اور بولے: ”بچو دراصل بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کی کمی ہی ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔“
زینب نے حیرانی سے پوچھا: ”بابا جان! پانی کی کمی؟ وہ کیسے؟ ہمارے گھر میں تو پانی کی کبھی کمی نہیں ہوئی۔“
بابا بولے: ”پیاری بیٹی! میں مجموعی طور پر پانی کی کمی کی بات کر رہا ہوں۔ اس وقت دنیا پانی کے بحران کا سامنا کر رہی ہے جو کہ ایک پریشان کن صورتِ حال ہے۔ کرہ ارض پر آکسیجن کے بعد پانی ہی زندگی کی ضمانت ہے. ہر گزرتے وقت کے ساتھ دنیا پر موجود پانی کی مقدار بھی تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور جہاں اس کی اشد ضرورت ہے، وہاں اس کی کمیابی ہے۔ تقریباً سب گھروں میں یہ ایک عام رویہ ہے کہ پانی کا استعمال احتیاط سے نہیں کرتے اور پھر پانی کے ٹینکر منگوانا پڑتے ہیں۔ پانی جیسی قیمتی دولت کا تحفظ بہت ضروری ہو چکا ہے۔“
یہ بات سن کر زہرا بولی: ”جی بابا جان، ہم یہ تو جانتے ہیں کہ پانی ہی زندگی ہے۔ لیکن میں نے تو سنا ہے کہ کرۂ ارض کا 71 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ پھر پانی کیسے کم ہو سکتا ہے؟“
باباجان بولے: ”آپ کی بات ٹھیک ہے بیٹی لیکن اس میں سے 97 فیصد پانی نمکین ہے جو پینے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ صرف 3 فیصد پانی میٹھا ہے جسے انسان پی سکتے ہیں۔ جب ہم پانی کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قابلِ استعمال پانی کی اس محدود مقدار کو انتہائی سمجھداری سے استعمال کرنا۔“
زینب جو بہت غور سے یہ باتیں سن رہی تھی، بولی: ”بابا جان، پانی کو کیسے سمجھداری کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے؟ ہم سب بہن بھائی تو بہت احتیاط سے پانی استعمال کرتے ہیں۔“
بابا جان زینب سے مخاطب ہو کر بولے: ”دراصل بیٹی! دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے قدرتی اور معدنی وسائل کم ہو رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال پانی کی کمی ہے۔ اس وقت آبادی کے لحاظ سے ہمارا پیارا ملک پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ چین، بھارت، امریکہ اور انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے بالترتیب پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ جس شرح سے پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے، یہ پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اورخدشہ ہے کہ مستقبل میں پاکستان میں اتنی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسائل بھی دستیاب نہیں ہوں گے۔ یوں سمجھ لیں کہ پاکستا ن میں آبادی اور وسائل کے درمیان توازن نہیں پایا جاتا جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور مستقبل میں بھی مزید مسائل پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ اب حال یہ ہے کہ پاکستان دنیا میں پانی کی سنگین قلت کے شکار ممالک میں تیسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے۔“
اس دوران ماما جان نے ٹیبل پر کھانا لگا دیا اور سب بچوں کو کھانا شروع کرنے کا کہا.
سب لوگ کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو عمار جو کافی دیر سے چُپ بیٹھا تھا، بولا: ”بابا جان یہ بتائیے کہ ہم پانی کی کمی کے حوالہ سے کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟“
بابا جان نے عمار بیٹے کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا اور گویا ہوئے: ”پیارے بیٹے! آپ کا سوال بہت اہم ہے۔ اس گمبھیرصورتِ حال میں جب کہ ہمیں انسانی ضروریات کے مطابق مطلوبہ مقدار میں پانی میسر ہی نہیں ہے تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم پانی جیسی نعمت کا غیرضروری اور بے دریغ استعمال نہ کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو اس بحران سے بچائیں۔ ہم اپنے گرد و پیش کے روزمرہ معمولات پر نظر ڈالیں تو کہیں نلکے سے پا ئپ لگا کر گھروں کے درودیوار اور گا ڑیوں کو گھنٹوں دھویا جاتا ہے تو کہیں اپنے وسیع وعریض لان میں پودوں کو پانی دینے کے لیے پائپ کے ذریعے پانی لگا کر بھول جاتے ہیں اور اس کا احساس ہمیں اُس وقت ہوتا ہے جب گھر کی ٹینکی خالی ہو چکی ہوتی ہے اور انتہائی ضروری کاموں کے لیے بھی گھر میں پانی میسر نہیں ہوتا۔ پھر ہم پانی کے ٹینکرمنگوانے کے لیے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں۔
پیارے بچو! پانی کی اس بے قدری کا خاتمہ کر تے ہوئے آئیے ہم اس بات کا عہد کریں کہ اپنے روزمرہ کے معمولات میں خواہ گھر پر ہوں یا سکول میں، مسجد میں ہوں یا کہیں بھی، پانی کو کفایت سے خود بھی استعمال کریں گے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں گے ۔ وضو کرنا ہو تو نلکا کھول کر پانی بھاری مقدار میں ضائع کر نے کے بجائے ایک لوٹا پانی سے وضو کیا جائے۔ نہاتے ہوئے شاور کھول کر پانی بہانا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک بالٹی پانی سے باآسانی نہایا جا سکتا ہے۔ دانت صاف کرتے وقت بیسن کا نلکا کھول کر پانی بہانے سے بہتر ہے کہ ایک کپ پانی سے اس عمل کو باآسانی مکمل کیا جائے اور پانی کی بچت کی جا ئے۔ اسی طرح بیت الخلا یا ٹوائلٹ فلیش کے غیر ضروری استعمال میں کمی کر کے پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ گھر کے فرش اور درودیوار پانی سے دھو نے کے بجائے گیلے پونچھے اورجھا ڑن سے صاف کیے جائیں. لان اور پودوں کے لیے شاور بالٹی استعمال کی جائے. اگر ٹینک، نلکے یا پانی کی لائن میں لیکیج ہو تو اس کی فوری درستگی کی جائے. کیوں کہ ہمارا دین بھی کسی صورت پانی کے استعمال میں لا پرواہی کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
”اگر تم دریا کے کنارے بھی بیٹھے ہو تو پانی (خواہ مخواہ) ضائع مت کرو۔“ سنن ابن ماجہ
بچو! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب آپ کے داداجان مرحوم کبھی دیکھتے کہ نلکے سے خواہ مخواہ پانی بہ رہا ہے تو ناراض ہو جاتے۔ گھر والوں کو ڈانٹتے ہوئے کہتے کہ ”پانی ضائع مت کرو، اسے معمولی شے نہ سمجھو۔“
بابا جان اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہوئے تو تینوں بچوں نے بآواز بلند عہد کیا کہ ”ہم نہ صرف خود پانی احتیاط سے استعمال کریں گے بلکہ اپنے دوست احباب کو بھی اس بارے ضرور آگاہ کریں گے.“
بابا جان نے تینوں بچوں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا اور چشمہ لگا کر اخبار کا مطالعہ کرنے لگے.
